قران

   

اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ (کی رضا) کے لیے پھر اگر تم گھر جاؤ تو قربانی کا جانور جو آسانی سے مل جائے (وہ بھیجدو) اور نہ منڈاؤ اپنے سر یہاں تک کہ پہنچ جائے قربانی کا جانور اپنے ٹھکانے پر۔ پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا اسے کچھ تکلیف ہو سر میں (اور وہ سر منڈالے) تو وہ فدیہ دیدے روزوں سے یا خیرات سے یا قربانی سے … (سورۃ البقرہ : ۱۹۶) 
عرب قدیم زمانہ سے حج کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے نزدیک حج کا ایک میلہ یا تجارتی منڈی بن کر رہ گیا تھا۔ عبادت کا پہلو تو بالکل ختم ہو گیا تھا۔ لوگ آتے سیرو تفریح کر جاتے شاعر اپنے قصائد اور خطیب اپنے آتشیں خطبے سنا کر لوگوں کے دلوں پر اپنی فصاحت وبلاغت کا سکہ جماتے اور چلے جاتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حج وعمرہ کرو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی رضا جوئی کے لئے۔ یعنی پورے آداب وشرائط کے ساتھ۔ پورے اخلاص وحسن نیت کے ساتھ۔ اگر تم احرام باندھ چکے ہو اور راستہ میں بیمارہو گئے یا دشمن نے راستہ بند کر دیا۔ اور تم حج کے ایام میں وہاں نہیں پہنچ سکتے ۔ تو اب احرام سے نکلنے کی یہ صورت ہے کہ قربانی کا جو جانور تم گھر سے لے آئے ہو وہ کسی کے ہاتھ بھیج دو یا اس کی قیمت روانہ کر دو اور انہیں یہ کہو کہ حرم میں پہنچ کر تمہاری طرف سے جانورذبح کر دیں۔ جب تم یہ خیال کرو کہ وہ حرم میں پہنچ گئے ہوں گے اور جانور ذبح کر دیا گیا ہوگا تو تم سر منڈا کر یا بال کٹوا کر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو سکتے ہو۔ لیکن اگر بیماری کی وجہ سے جلد سر منڈانے کی ضرورت پڑجائے تو فدیہ کے طور پر روزے رکھ لو۔ صدقہ دیدو یا جانور ذبح کر دو۔