قرآن

   

اے ایمان والو!آگے نہ بڑھا کرو اللہ اور اس کے رسول سے اور ڈرتے رہا کرواللہ تعالیٰ سے ۔ بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا ، جاننے والا ہے۔ ( سورۃ الحجرات۔ ۱) 
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ اس سے پہلی سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم نبی معظم (ﷺ) کا مقام عالی اور شان رفیع بیان فرمائی کہ یہ وہ رسول ہے جس کی رسالت کے ہم گواہ ہیں۔ جس کے دین کو تمام ادیان پر غلبہ حاصل ہوگا۔ اس کے غلام ان صفات جلیلہ سے موصوف ہیں جن کا ذکر خیر سابقہ آسمانی کتب میں بھی موجود ہے۔ اس سورت میں اس رسول ذی شان کی عزت و تکریم کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ادب و احترام کے انداز سکھائے جا رہے ہیں ۔ چونکہ ادب ہوگا تو دل میں تعظیم ہوگی۔ تعظیم ہوگی تو اس کے ہر حکم کی تعمیل کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جب تعمیل حکم کی خو پختہ ہوگی تو محبت کی نعمت مرحمت فرمائی جائے گی ۔ ادب و احترام کے درس کا آغاز لَا تُقَدِّمُوْا سے فرمایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس ؓسے اس جملہ کی تفسیر ان الفاظ میں نقل کی ہے کہ کتاب و سنت کی خلاف ورزی مت کرو۔ لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّهِ وَرَسُوْلِـهٖکے مختصر کلمات میں معانی و مطالب کا بحز بیکراں موجزن ہے۔ یہاں ایک چیز غور طلب ہے۔ لَا تُقَدِّمُوْا متعدی ہے لیکن اس کا مفعول مذکور نہیں۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو ذکر کر دیا جاتا تو صرف اس کے بارے میں حکم کی خلاف ورزی ممنوع ہوتی۔ مفعول کو ذکر نہ کرکے بتا دیا کہ کوئی عمل ہو، کوئی قول ہو، زندگی کے کسی شعبہ سے اس کا تعلق ہو، اس میں اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد سے انحراف ممنوع ہے۔