قربانی: حکمت، فلسفہ اور غلط فہمیوں کا ازالہ

   

ذوالحجہ کے مبارک و مقدس مہینہ میں اسلام کے ایک مہتم بالشان رکن ’’فریضۂ حج‘‘ ادا کیا جاتا ہے۔ حجاج کرام اس ماہ کی ۹؍ تاریخ کو میدان عرفات میں وقوف کے ذریعہ مناسک حج کا رکن اعظم ادا کرتے ہیں، پھر دوسرے دن دسویں تاریخ کو شیطان کو کنکریاں مارکر بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے۔ اسی طرح ساری دنیا کے مسلمان ۱۰،۱۱ اور ۱۲؍ ذی الحجہ کو اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لئے حسب استطاعت قربانی پیش کرتے ہیں۔

یہ قربانی درحقیقت حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم یادگار ہے۔ جب آپ کو ضعیف العمری میں اللہ تعالی نے اولاد سے نوازا اور وہ مبارک لڑکا اپنے والد کے ساتھ کام کاج کے قابل ہوا تو اللہ تعالی نے ایک عظیم آزمائش میں آپ کو مبتلا کیا اور فرزند دلبند کو ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی کو پاکر اپنے فرزند سے اس کا اظہار کیا۔ والد محترم اور فرزند ارجمند کے درمیان قربانی سے متعلق جو تبادلہ خیال ہوا اور جس انداز میں ان بزرگ ہستیوں نے تسلیم و رضا، فنائیت اور قربانی کی اعلی مثال پیش کی اور جس اسلوب و پیرایہ میں اپنے جذبات عشق و محبت کا اظہار کیا، چشم فلک نے شاید روئے زمین پر ایسا نظارہ کبھی نہ دیکھا ہو کہ والد ضعیف العمری میں اپنے اکلوتے فرزند کو محض اللہ تعالی کی رضا کے لئے قربان کرنے تیار ہیں اور کس قدر مبارک یہ فرزند ہیں، جو راہ خدا میں قربان ہونے کے لئے کشاں کشاں قربان گاہ جا رہے ہیں۔ اس عظیم منظر کو قرآن مجید نے ہمیشہ کے لئے اپنے سینہ میں محفوظ کرلیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’انھوں نے (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کہا: میں (ہجرت کے لئے) اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں، وہی مجھے سیدھی راہ چلائے گا۔ (جب وہ ہجرت کرکے ارض مقدس ملک شام پہنچے تو دعا کی) اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ پس ہم نے انھیں بڑے برد بار لڑکے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ دونوں (رضائے الٰہی کے لئے جھک گئے اور (ابراہیم علیہ السلام نے فرزند کو) پیشانی کے بل لٹا دیا، ہم نے ندا دی! اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کردکھایا۔ یقیناً ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ عطا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ بہت واضح آزمائش تھی، ہم نے (دنبہ کی) بڑی قربانی کے عوض ان کا (حضرت اسماعیل علیہ السلام) فدیہ کردیا اور ہم نے بعد کے آنے والوں میں ان کا نام باقی رکھا۔ سلامتی ہو ابراہیم (علیہ السلام) پر‘‘۔

(سورۃ الصفت۔۹۹تا۱۰۹)
اللہ تعالی کو یہ قربانی، جذبہ جاں نثاری اور فدائیت ایسی پسند آئی کہ اللہ تعالی تاقیامت اس کو جاری فرما دیا۔ بنابریں اس واقعہ کو ہوئے صدہا بلکہ ہزارہا سال بیت گئے، لیکن جب ذی الحجہ کا مہینہ آتا ہے، مسلمان اس واقعہ کی یاد اور حکم الہی کی تعمیل میں قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’نحر کے دن (دسویں ذی الحجہ) کو انسان کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک خون بہانے (قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور وہ جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو‘‘۔ (ترمذی، ابوداؤد)

طبرانی میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے حصول ثواب کی خاطر خوش دلی سے قربانی کی، وہ قربانی اس کے لئے دوزخ کی آگ سے حجاب (رکاوٹ) ہوجائے گی‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فربہ جانور کی قربانی دینے کی ترغیب دی اور فرمایا: ’’وہ قیامت کے دن پل صراط پر تمہاری سواری ہوگا‘‘ اور فرمایا: ’’جو روپیہ عید کے دن قربانی پر خرچ ہوگا، وہ اللہ تعالی کے نزدیک دیگر مال سے زیادہ محبوب ہوگا‘‘ (طبرانی) اور جو لوگ وسعت و گنجائش کے باوجود قربانی نہیں کرتے، ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ان کو عیدگاہ آکر مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہونے سے منع کردیا۔

خدا کی عجیب قدرت ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر پوری دنیا میں ہر سال لاکھوں قربانیاں ہوتی ہیں، لاکھوں کی تعداد میں دنبہ، گائے، بیل بھینس اور اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں، لیکن کسی سال ان جانوروں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ جنگلی جانوروں کی بقاء و تحفظ کے لئے نت نئے قوانین بنائے جاتے ہیں، لیکن پالتو جانوروں کی بقاء و تحفظ کا انتظام اللہ تعالی نے ایسا فرمایا کہ اس قدر کثرت سے ذبح کرنے کے باوجود ان کی تعداد میں کمی نہیں ہوتی، بلکہ آبادی کے اضافہ کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

آج کل ہر کس و ناکس اسلام کے احکامات پر ببانگ دہل تبصرہ کر رہا ہے اور ناقص العقلی و کوتاہ فہمی کے باوجود اپنی بلند خیالی اور وسیع النظری کا اظہار کر رہا ہے۔ چنانچہ بعض کے نزدیک اس قدر کثیر تعداد میں قربانیاں پیش کرنا لغو و لایعنی ہے، اس میں پیسوں کا ضیاع ہے۔ ان کے نزدیک قربانی پر خرچ کی جانے والی رقم اگر کسی ضرورت مند و مستحق کو دے دی جائے تو ایک ضرورت مند کی مدد ہوسکتی ہے، غریب لڑکی کی شادی میں کچھ تعاون ہو سکتا ہے، بیمار کے علاج میں سہولت ہو سکتی ہے۔ بظاہر یہ بات معقول نظر آتی ہے، کیونکہ اسلام نے غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، ضرورت مند کے کام آنے کی تلقین کی ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ قربانی اختیاری عمل نہیں ہے، بلکہ وہ محض حکم خداوندی ہے، جس کی تعمیل اہل اسلام پر لازم ہے۔ اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں اور نہ عقل و قیاس کا دخل ہے۔ اس حکم میں جو راز پوشیدہ ہے، وہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے اور حکم الٰہی پر سرتسلیم خم کرنا ہی مسلمانی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’کسی مؤمن مرد یا کسی مؤمن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا فیصلہ کریں تو اس میں ان کو اختیار رہے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے، وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘۔
(سورۃ الاحزاب)