قربانی کی حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر

   

آپ سب حضرات کو عیدالاضحی مبارک ہو۔ ایک ہفتہ پہلے سے جانور خریدے جارہے تھے ۔ بچے جانوروں کے گلے میں رسی ڈال کر اُنھیں لیے لیے پھر رہے تھے ۔ ان بچوں کے لئے یہ عید اک کھیل تماشا ہی ہے ۔ انھیں کچھ نہیں معلوم کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے اور سچ پوچھئے تو اکثر عمر رسیدہ لوگوں کو بھی نہیں معلوم کہ قربانی کی حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے۔ یہ کس مقصد سے کی جاتی ہے ۔کیا اس سے مقصود لذت کام و دہن ہے یا اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد ہے۔
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے بعض صحابہ نے پوچھا: یا رسول اﷲﷺ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ؟
آپ ؐ نے فرمایا : یہ تمہارے روحانی اور نسلی مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ اس سنت ابراہیمی کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف طریقوں سے آزمایا گیا ۔ یہ جتنے جلیل القدر پیغمبر ہیں ، ان کی آزمائشیں بھی اتنی ہی عظیم القدر ہیں۔
ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے : ’’وہ وقت قابل ذکر ہے جب ابراہیمؑ کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو وہ ان سب میں پورا اُترے ‘‘۔ ( بقرہ ۲: ۱۲۴)
اِس وقت میرا موضوع ’’قربانی‘‘ ہے ۔ قربانی کا لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے ۔ عربی میں صرف قربان بولا جاتا ہے ۔ جس کے معنی بھینٹ یا ذریعۂ تقرب کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ صرف تین جگہ استعمال ہوا ہے ۔
(۱) اﷲ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے ( جسے غیب سے آکر) آگ کھالے۔ (عمران ۳: ۱۸۳) (۲) اور ( اے نبیؐ ) انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی آپ ٹھیک ٹھیک سنادیں جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ۔ (المائدہ: ۲۷)
(۳) انھوں نے اﷲ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جن کو اﷲ کے سوا معبود بنا رکھا تھا پھر انھوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی ۔ (احقاف ۴۶: ۲۸)
مذہب کی اصطلاح میں ’قربانی‘ سے مراد ہروہ چیز ہے جو انسان اﷲ کے حضور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے پیش کرے یا ہر وہ چیز جسے اﷲ کے تقرب کا ذریعہ بنایا جائے ، خواہ وہ جاندار ہو یانذر و نیاز یا عام صدقہ و خیرات۔ مناسک حج میں یہ لفظ اس جانور کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہر سال ۱۰؍ ذی الحج کو حج کے بعد ذبح کیا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے اس عید کو عیدالاضحی یا عید قرباں بھی کہا جاتا ہے ۔ قربانی کا سلسلہ آدمؑ سے جاری ہے اور قربانی کی روح یہ ہے کہ اﷲ کی راہ میں بندہ اپنی محبوب و مرغوب چیز قربان کرے ۔ انسانی زندگی کے ابتدائی دور میں انسان کا سرمایہ مویشی ہی تھے اس لئے قربانی بھی انہی مویشی ہی کی کی جاتی تھی اور اس کاطریقہ یہ تھا کہ جانور ذبح کرنے کے بعد غیب سے اک آگ آکر اس کو کھاجاتی تھی سمجھا جاتا تھا کہ قربانی قبول ہوگئی اور اگر آگ آکر اس کو نہ کھاتی تو سمجھا جاتا تھا کہ قربانی قبول نہ ہوئی جیسا کہ مذکورہ آیات سے واضح ہورہا ہے ، لیکن بعد میں یہ طریقہ ختم کردیا گیا اور قربانی کا گوشت انسانوں کیلئے بھی حلال کردیا گیا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق میں بٹھاکر نار نمرود میں جب پھینکا جارہا تھا ایک پوشیدہ آزمائش اور سامنے آگئی ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہوا اور بارش کے فرشتوں کے ساتھ آئے اور عرض کیا ! اے خلیل اﷲ ! میں حاضر ہوں ، کوئی حکم ؟ کوئی ارشاد ؟
فرمایا : اے جبرئیلؑ ! اگر یہ پیشکش تمہاری طرف سے ہے ، تو مجھے تمہاری مدد اور اعانت کی ضرورت نہیں ۔
اﷲ اﷲ ! صبر و استقامت اور رضا بالقضا کا کیسا کوہِ گراں ہے یہ پیغمبر عالی مقام !
جبرئیل ؑ پھر عرض کرتے ہیں : اے خلیل اﷲ ! اپنے رب جلیل سے اپنی حفاظت کی دعا ہی مانگیئے ، آپ کے بچنے کی کوئی صورت تو ہو ۔ اس پیکر تسلیم و رضا نے جواب دیا : وہ میرا حال جانتا ہے ، مجھے عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ راہِ سلوک میں ایک منزل ایسی بھی آتی ہے جہاں بندہ راضی برضا کا ایسا پیکر بن جاتا ہے کہ اس کی زبان گنگ ہوجاتی ہے اور دعا کے لئے بھی نہیں کھلتی ۔ یہ وہی مقام ہے جس سے اس وقت ابراہیم علیہ السلام گزرر ہے ہیں۔ قضائے الٰہی کے آگے انھوں نے سرجھکادیا ہے اور منجنیق میں بیٹھ گئے ہیں۔ مہر بہ لب ہیں ادھر منجنیق سے نکلے اُدھر اﷲ کے حکم سے دہکتی آگ ان کے لئے لئے گل و گلزار بن گئی ۔ اﷲ تعالیٰ کو ابراہیم علیہ السلام کا یہ معجزہ دکھانا تھا دکھادیا لیکن ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستان پیدا