مدینہ منورہ کی فضیلت

   

سید شاہ مصطفے علی صوفی سعید قادری
شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ نے اپنی تصنیف ’’جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب‘‘ میں لکھا ہے کہ امت کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ زمین بھر کے سب شہروں میں سب سے زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھنے والے دو شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہیں، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں شہروں میں سے کس شہر کو کس شہر پر فضیلت اور کس کو کس پر ترجیح ہے۔تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ زمین کے دیگر تمام حصوں حتی کہ کعبۃ اللہ سے بلکہ بقول بعض علماء جملہ آسمانوں سے یہاں تک کہ عرش معلّٰی سے بھی افضل زمیں کا وہ مبارک ٹکڑا ہے جس سے حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا جسم اطہر ملا ہو ا ہے، کیونکہ آسمان اور زمین دونوں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قدموں سے مشرف ہوئے ہیں۔ حضرت عمر فاروق اعظم، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت امام مالک رضی اللہ عنہم اور اکثر علمائے مدینہ منورہ کا مذہب یہ ہے کہ مکہ معظمہ پر مدینہ منورہ کو فضیلت ہے، لیکن بعض علماء کہتے ہین کہ مدینہ منورہ اگر چہ کہ مکہ معظمہ سے افضل ہے، لیکن خاص کعبۃ اللہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مکہ معظمہ شہر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی قبر شریف کو چھوڑ کر باقی مدینہ شہر سے افضل ہے اور حضرت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی قبر شریف کی زمین مکہ کے شہر بلکہ خانہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔
مدینہ شریف کے فضائل احادیث شریفہ اور روایات میں مذکور ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
۱) حضور انورصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مدینہ منورہ کو بے حد محبوب رکھتے تھے۔ جب کبھی سفر سے واپس ہوتے تو چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوتے اپنی چادر کو بازو سے ہٹادیتے اور چہرۂ مبارک کو صاف نہیں فرماتے۔ ارشاد فرماتے کہ ’’مدینہ کی خاک میں شفا ہے‘‘۔
۲) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کو شرک کی نجاست سے پاک فرمایا ہے۔
۳) حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شیطان اپنی پرستش اور پوجا کرنے سے مدینہ میں نا امید ہو گیا ۔
۴) سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ’’پہلے جو لوگ میری شفاعت سے مشرف ہوں گے وہ مدینہ والے پھر مکہ والے پھر طائف والے ہونگے‘‘۔
۵) حضورصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنی رحلت کے لئے دعا فرمائی اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین نے بھی مدینہ میں اپنی موت کی دعا کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میری قبر کے لئے مدینہ کے سوا پوری زمین پر کوئی دوسری جگہ مجھے پسند نہیں ہے‘‘۔
چنانچہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اکثر اپنی شہادت اور مدینہ میں اپنی موت کیلئے دعا کی ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے ایک فرض حج ادا ہونے کے بعد پھر حج نہیں کیا اور مدینہ منورہ سے باہر نہیں نکلے اس خوف سے کہ کہیں مجھے مدینہ منورہ کے سوائے کسی اور جگہ موت نہ آجائے۔ چنانچہ آخر دم تک مدینہ میں رہے اور مدینہ مین ہی دفن ہوئے۔
۶) بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ’’مدینہ گناہوں کی نجاست سے آدمیوں کو اس طرح پاک کرتا ہے جیسا کہ بھٹی چاندی سے میل کو دور کرتی ہے‘‘۔
۷) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے جو شخص میرے پڑوسیوں (یعنی مدینہ والوں) کو احترام کی نظر سے دیکھے گا تو میں قیامت کے دن اس کاگواہ اور شفاعت کرنے والا رہوں گا اور جو میرے پڑوسیوں کی بے حرمتی کریگا تو اسکو (دوزخ کے ایک حوض سے پیپ اور لہو) پلایا جائیگا۔
۸) حدیث شریف ہے مدینہ میری ہجرت کی جگہ ہے‘ میری ابدی آرام گاہ ہے اور قیامت کے دن ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ میرے اُٹھنے کی جگہ ہے۔ (ماخوذ از رقیمہ تقدس شمامہ)
۹) حضورصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کریگا قیامت کے دن میں اس کا شفیع رہوںگا‘‘۔(مسلم وترمذی)
۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ’’جس سے ہوسکا کہ مدینہ میں مرے تو وہ مدینہ ہی میں مرے، کیونکہ جو شخص مدینہ میں مریگا تو میں اسکی شفاعت کروں گا‘‘۔ ( ترمذی ۔ ابن ماجہ ۔ ابن حبان۔بیہقی)
۱۱) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں لوگ جب شروع شروع کے پھل لے کر حاضر ہوتے تو آ پ اس کو لے کر فرماتے ’’الٰہی! تو ہمارے لئے ہمارے کھجوروں میں برکت دے اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے‘ ہمارے صاع و مد میں برکت فرما۔ یااللہ ! بیشک ابراھیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور بیشک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعاء کی اور میں مدینہ کیلئے تجھ سے (خیر و برکت کی) دعا کرتا ہوں کہ انھیں بھی مکہ والوں جیسی برکت (عطا) فرما اور مکہ والوں کو جہاں ایک برکت دی تو مدینہ والوں کو اسکے برابر دو دو برکتیں عطافرما‘‘۔(مسلم)
۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا یا اللہ ! تو مدینہ کو ہمارا ایسا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اسکی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرمادے۔ اسکے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو حجفہ میں منتقل کرکے بھیج دے۔ (مسلم)
۱۳) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائیگی (سب پر غالب آئیگی)۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ بستی مدینہ ہے جو لوگوںکو اسطرح پاک و صاف کریگی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (بخاری و مسلم)
۱۴) مدینہ کے راستوں پر فرشتے (پہرا دیتے) ہیں۔ اس میں نہ دجال آئے اور نہ طاعون۔ (بخاری و مسلم)
۱۵) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے کہ مکہ و مدینہ کے سوائے کوئی شہر ایسا نہیں کہ جہاں دجال نہ آئے۔ مدینہ کا کوئی راستہ ایسا نہیں جس پر فرشتے پر باندھکر پہرا نہ دیتے ہوں۔ دجال شورز (قریب مدینہ) میں آکر اُتریگا۔ اس وقت مدینہ میں تین زلزلے ہونگے، جن سے ہر کافر اور منافق وہاں سے نکل کر دجال کے پاس چلا جائیگا۔ (بخاری و مسلم)
۱۶) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے جو اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کریگا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں ایسا پگھلادے گا جیسے سیسہ آگ میں یا نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم۔بزاز)
۱۷) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا، اللہ تعالیٰ اسکو خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان) ۔
۱۸) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے جو اہل مدینہ کو ایذا دیگا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایذا دیگا اور اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائیگا اور نہ نفل۔ (طبرانی کبیر)