مہذب سماج میں ہجوم کے ہاتھوں افراد کا قتل، جرم کی بدترین قسم

   

’’کیا ہندوستان میں مسلمانوں کو جینے کا حق حاصل ہے ؟‘‘ مجید میمن کا وزیراعظم سے سوال
نئی دہلی۔ 25 جون (سیاست ڈاٹ کام) راجیہ سبھا میں سہ شنبہ کے دن معصوم لوگوں کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کا مسئلہ چھایا رہا۔ این سی پی کے رکن مجید میمن نے اس قسم کے واقعات میں اضافہ پر حکومت پر ہلہ بول دیا۔ انہوں نے حکومت سے دریافت کیا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو مسلم نوجوان مسلسل خوف و ہراس کے عالم میں جی رہے ہیں اور ہندوستان کے 21 کروڑ مسلمانوں کو کیا دستور کے تحت زندہ رہنے کا حق حاصل ہے؟ انہوں نے یاد دلایا کہ ارکان پارلیمان سے خطاب سے قبل وزیراعظم نے دستور کے آؑے اپنا سر جھکایا تھا اور بہت ہی زور دے کر کہا تھا کہ اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ انہوں نے بیان کہا کہ تمام احترام و توقیر کے ساتھ میں وزیراعظم سے پوچھ رہا ہوں کہ حکومت، مسلمانوں کا اعتماد کس طرح حاصل کرسکتی ہے جب مسلم نوجوان جیسے تبریز کو بے رحمی سے مارا پیٹا جاتا ہے اور انہیں جئے شری رام اور جئے ہنومان کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے‘‘۔ بہت ہی شرم کی بات ہے کہ دستور کی اس ضمانت کے بعد کہ ہندوستان کے ہر شہری کو زندہ رہنے کا حق ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے دستور کے نفاذ کے باوجود بھی کس طرح مسلمان نوجوان قتل کئے جارہے ہیں۔ کیا 21 کروڑ مسلمان خوشی کے ساتھ زندہ رہنے کے حق سے بے خوف و خطر اور عزت و وقار کے ساتھ استفادہ کررہے ہیں؟ انہوں نے سوال کیا اور کہا کہ ملک نے گزشتہ پانچ سال میں جو کچھ دیکھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا۔ اس لئے سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے کہا تھا کہ ’’دستور کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے‘‘۔ مجید میمن نے بتایا کہ ’’ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کا قتل ایک مہذب سماج میں جرم کی بدترین قسم ہے۔ دوشنبہ کو حزب مخالف کے قائد غلام نبی آزاد نے کہا تھا کہ جھارکھنڈ، ملک کی ایک ایسی فیاکٹری میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں مسلمانوں اور دلتوں کا ’’ہجومی قتل‘‘ ہورہا ہے اور ہر ہفتہ ان پر حملوں کے واقعات ہورہے ہیں۔