نسبِ رسول ﷺ کی پاکیزگی و طہارت (قرآن کی روشنی میں )

   

مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
کسی انسان کے اعزازات میں اور اس کے مقام و مرتبہ میں فرق اس کی فضیلت و شرافت کی وجہ سے آتا ہے ۔ شرافت اگر اپنے نقطۂ عروج پر ہو تو یہی اس کی فضیلت کا باعث بنتی ہے ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اسی شرافت کا اولین انحصار اس کے نسب کے پاکی و ستھرائی پر رکھا اور اس کو پاک رکھنے کی خاطر نکاح کا بہترین رواج قائم کیا اور سفاحت و بدکاری سے محفوظ فرمایا ۔ تمام انسانی نسل کی شرافت اپنی جگہ ہے اور بات اﷲ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کی ہو تو تمام فضیلتیں اور شرافتیں اپنے اتمامِ حقیقی کے ساتھ آپ ﷺ کی شخصیت میں مجتمع ہوجاتی ہیں۔ حضور ﷺ کی دیگر فضیلتوں کی طرح آپؐ کا شرفِ نسبی بھی بے مثل و بے مثال ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں سیدنا ابراھیم علیہ السلام جدِ رسولِ معظٔم ﷺ کی دعا ذکر کی گئی : ’’اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک طبقے کو اُمتِ مسلمہ بنا ‘‘ ۔ ( سورۂ بقرہ : آیت ۱۲۸)
یہ دعا جب کی جارہی تھی تب ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت اسمعیل علیہ السلام تھے اور جب یہ دعا کی گئی تو اس میں ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام شامل نہیں تھے لہذا اس میں جس ذریت و اولاد کے مسلمان رہنے کی دعا ہورہی ہے وہ اسمعیل ؑکے ذریعہ جو نسل پھیلے گی ، اس کے مسلمان ہونے کی بات ہے۔ اب کیونکہ یہ تمام ذریت کے مسلمان ہونے کی بات نہیں کی گئی ہے تو اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک طبقہ ہمیشہ کفر و شرک سے پاک رہا اور ان کی نسلیں مسلمان رہیں۔
جب ایک خاص طبقہ کی طہارت و پاکیزگی کی دعا مانگی ، اس کے بعد عرض کرتے ہیں کہ : ’’اے ہمارے رب ! ان میں (یعنی وہ ذریت جو مسلمان رہے گی ، اس میں ) انہی میں سے ( وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرمایا جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے ( کر دانائے راز بنادے ) اور ان ( کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کردے ، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔ (سورۂ بقرہ : آیت ۱۲۹)
پس ابراہیم علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ کی آمد و تشریف آوری اس نسلِ اسمعیل علیہ السلام میں مانگی جو ہمیشہ مسلمان و فرمانبردار رہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور نسلِ اسمعیل علیہ السلام کا ایک طبقہ ہمیشہ عقیدۂ توحید پر رہا اور کفر و شرک کی گرد و غبار بھی ان تک نہ پہونچ سکی ۔ حالانکہ اسمعیلؑ کی اولاد میں سے دوسرے لوگ گمراہ ہوئے ، کافر و مشرک بھی ہوئے لیکن ایک طبقہ ہمیشہ ان آلودگیوں سے مامون رہا اور یہ طبقہ جسے محفوظ رکھا گیا اسے نسبِ مصطفی ﷺ بننا تھا ، اس طبقہ کو حضور ﷺ کے آباءواجداد بننا تھا ، اور حضور اکرم ﷺ کی ولادت کی خاطر اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے پورے نسب کو کفر و شرک کی آلودگی سے پاک فرمادیا کیونکہ ولادت مصطفی ﷺ اس نسب و خاندان میں ہو جس کے مرد و عورت کسی دور میں بھی کفر و شرک میں مبتلا نہ ہوئے ہوں کہ ان کے نسب سے چل کر رسول اﷲ ﷺ نے تشریف لانا ہے اور حضورؐ کی ولادت طہارت پر مشتمل نسب میں ہو ۔ دیکھئے کہ میلادِ مصطفی ﷺ کا کیا اعزاز و اکرام فرمایا گیا ، جس نسب سے حضورؐ کی ولادت ہونے والی تھی اس کو ہزارںسالوں سے پاک و صاف اور عقیدہ ٔ توحید پر جمائے رکھا تاکہ حضورؐ کا نور جن پشتوں پر سوار ہوکے آنا ہے اور جن ماؤں کے بطون سے ہوکر آنا ہے کہیں بھی شرک و کفر کی آلودگی نہ ہو تاکہ نسبِ رسول ﷺ پر یہ طعنہ نہ آسکے ۔ یہ ا ﷲ تعالیٰ نے تقدیسِ ولادتِ مصطفی ﷺ کی خاطر طہارت نسبِ مصطفیﷺ کااہتمام فرمایا ہے ۔
دوسرے مقام پر ایک اور دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیاگیا ہے کہ : ’’… اور مجھے اور میری اولاد کو اس ( بات ) سے بچالے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں‘‘ ۔ ( سورۂ ابراھیم ، آیت:۳۵)
میرے رب ! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنادے ، اے ہمارے رب ! اور تو میری دعا کو قبول فرمالے ( سورۂ ابراھیم ، آیت:۴۰)
یہاں بھی وہی دعا کی کہ میری اولاد میں ایک طبقہ ایسا رکھ جو کفر و شرک، جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں بھی شمعِ ایمان فروزاں رکھے اور ہمیشہ تیری عبارت کرتا رہے تاکہ نورِ مصطفی ﷺ ان پشتوں اور نسلوں سے گزرتا ہوا وادیٔ مکہ میں ظہور پذیر ہوجائے ۔ یہ تمام دعائیں میلادِ مصطفی کی طرف اشارہ ہیں۔ اب اﷲ تعالیٰ نے دعاؤں کاجواب عطا فرمایا : ’’اور ابراھیم (علیہ السلام) نے اس (کلمۂ توحید) کو اپنی نسل و ذریت میں باقی رہنے والا کلمہ بنادیا تاکہ وہ ( اﷲ کی طرف رجوع کرتے رہیں۔ (سورۂ زخرف، آیت:۲۸)
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابراہیمؐ نے توحید و ردِّ شرک پر اتنی محنت کی کہ اپنی نسل و ذریت میں باقی رہنے والا کلمہ بنادیا تاکہ ان کی نسل میں آئندہ آنے والے لوگ ہمیشہ اس توحید کی طرف رجوع کرتے رہیں ، ایمان کی طرف رجوع پر رہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداﷲ ابن عباسؓ نے فرمایا : کلمۂ توحید سے مراد شہادت ’’لاالہ الا اﷲ ‘‘ کا کلمہ ہے اور یہ کلمہ ابراہیمؑ کی نسل کے ایک طبقہ میں باقی رہ گیا‘‘۔ (طبری ، جامع البیان )
امام سیوطیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ابراہیم ؑ کی خدمت میں، ابراہیمؑ کے دور سے بنی اسمعیلؑ کے ہر دور میں ایک طبقہ ایسا رہا جو ہمیشہ توحید پر برقرار رہا ‘‘۔ (تفسیر الدرالمنثور)
سوال یہ آتا ہے کہ حضرت ابراہیمؐ نے بہ اہتمام دعا کیوں فرمایا اور یہ کلمۂ توحید آپ کی ذریت میں کب تک رہا ؟
اس کا جواب اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا : ’’بلکہ میں نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو ( اس ابراہیمؑ کے تصدق اور واسطہ سے اس دنیا میں ) فائدہ پہنچایا ہے ، یہاں تک کہ ان کے پاس حق ( یعنی قرآن ) اور واضح و روشن بیان والا رسول ( صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ) تشریف لے آئے ‘‘ ۔
(سورۂ زخرف ، آیت : ۲۹)
وہ کلمۂ توحید جس کو برقرار رکھنے کی ابراہیمؑ نے دعا کی تھی اﷲ تعالیٰ نے اس کو باقی رکھا اور وہ افرادِ خاندانِ رسولؐ جو آپؐ کے زمانے میں تھے جس کو آیت میں ’’ھٰؤُلآئِ‘‘ کہا گیا ، اور ابراہیمؑ تک کے آباء و اجداد کو بھی اس کلمۂ توحید کا فیض بخشا گیا اور یہ سب صرف اور صرف میلادِ مصطفی ﷺ کی برکت سے اور نسبِ مصطفیؐ ہونے کے سبب سے بخشا گیا اور یہ فیضِ بقائِ کلمۂ توحید کس وقت تک رہا ؟
ترجمہ : ’’یہاں تک کہ ان کے پاس حق ( یعنی قرآن ) اور واضح و روشن بیان والا رسول ( ﷺ ) تشریف لے آئے ۔
(سورۂ زخرف ، آیت : ۲۹)
یہ تھا سفرِ نورِ مصطفی ﷺ کا جو از روئے قرآن پاک مطاہر طریق سے ہوکر دنیا میں ظہور پذیر ہوا اور یہ ہے شرافتِ نسبِ مصطفی ﷺ کے جن کے شجرۂ نسب میں کوئی بھی کافر و مشرک یا بدکار نہ ہوا ۔
اﷲ تعالیٰ حضورؐ کی میلاد کی برکات و انوار سے ہمیں مستفیض فرمائے ، حضور ﷺ کی شان و عظمت کا عرفان عطا فرمائے اور حضور ﷺکی سچی محبت و کامل اتباع نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہٖ الطیبین