اب مجھے شیر نہیں گائے سے ڈر لگتا ہے

   

مودی کی بیرونی تفریح شروع…لوک سبھا میں گجرات کی جوڑی
ہجومی تشدد حفاظت خود اختیاری ضروری

رشیدالدین
وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی اپنی دوسری اننگز کا آغاز بیرونی دوروں سے کر رہے ہیں۔ حلف برداری میں بیرونی مہمان اور پھر بیرونی دوروں کا آغاز پہلی میعاد کی روایت رہی جو دوسری میعاد میں بھی جاری ہے۔ پہلی حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہان مملکت کو دعوت دی گئی تھی جبکہ دوسری میعاد کے آغاز پر بمسٹک ممالک کے سربراہ مدعو رہے۔ بیرونی دورے نریندر مودی کا محبوب مشغلہ ہے اور پانچ برسوں میں مودی نے ملک کی تمام ریاستوں کا بھلے ہی دورہ نہیں کیا لیکن 57 ممالک کا 92 مرتبہ سفر کیا ۔ 92 بیرونی دوروں سے سرکاری خزانہ پر سینکڑوں کروڑ کا بوجھ پڑا ہے ۔ ریاستوں کی یاد تو بس انتخابات کے وقت آتی ہے۔ پہلی میعاد میں بیرونی دوروں کی رفتار دیکھ کر سیاسی مبصرین یہاں تک تبصرہ کرنے لگے کہ اگر یہی رفتار جاری رہی تو دنیا کے نقشہ پر چند نئے ممالک کا اضافہ ہوجائے گا جو کہ نریندر مودی کی کھوج ہوگی۔ 57 ممالک کے دورہ سے ملک کو کیا فائدہ ہوا ، یہ آج تک واضح نہیں ہے ۔ اس قدر بیرونی دوروں کے باوجود پڑوسی ممالک سے ہندوستان کے تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔ دوسری طرف چین سے اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے۔ جس امریکہ کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے ایران سے تیل کی خریدی بند کردی گئی، اسی امریکہ نے اصلی رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔ برآمادات پر دی جانے والی رعایتوں کو ختم کرتے ہوئے ہندوستانی تاجرین اور صنعت کاروں کے لئے مشکلات میں اضافہ کردیا۔ امریکہ کی تابعداری کس کو راس آئی جو کہ ہندوستان کو آئے گی۔ امریکہ سے تو معاملت تابعداری کے بجائے حصہ داری کی ہونی چاہئے۔ پہلی میعاد میں مودی حکومت خارجہ پالیسی کا ایک بھی کارنامہ پیش نہیں کرسکتی۔ امریکہ ، چین اور جاپان سے بہتر تعلقات کیلئے سابق سفارتکار کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔

دوسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی مودی نے مالدیپ اور سری لنکا کا دورہ کیا۔ چین خطہ میں اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے چھوٹے ممالک کو اپنا ہمنوا بنا چکا ہے ۔ کیا نریندر مودی ان ممالک کو چین سے دوری اختیار کرنے کیلئے راضی کر پائیں گے ؟ چین کے منصوبہ پر عمل آوری کے لئے سب سے بڑا مددگار پاکستان ہے، جس سے تعلقات کو مستقل طور پر کشیدہ رکھتے ہوئے بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کر رہی ہے۔ مودی آئندہ ہفتہ کرغستان میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) سمٹ میں شرکت کریں گے۔ وہاں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات پر وزارت خارجہ کی جانب سے شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات طئے نہیں ہے۔ دونوں قائدین کی مختلف مواقع پر ایک دوسرے کو مبارکبادیوں کا سلسلہ جاری ہے ، پھر ملاقات سے انکار کیوں ؟ عمران خان پہلے بیرونی قائد ہیں جنہوں نے مودی کی دوبارہ کامیابی کی تائید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مودی کے برسر اقتدار آنے پر مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد ملے گی۔ ظاہر ہے کہ مودی ایسے ہمدرد کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ طئے شدہ نہ سہی سمٹ کے دوران ڈرامائی انداز میں دونوں قائدین کی ملاقات ہوسکتی ہے۔ اگر عمران خان کا سامنا کرنا مقصود نہ ہوتا تو مودی چوٹی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ نہ کرتے اور کسی نمائندہ کو روانہ کرتے ۔ دوسری طرف 17 ویں لوک سبھا کا پہلا بجٹ سیشن 17 جون کو شروع ہوگا اور 26 جولائی تک جاری رہے گا ۔ مکمل بجٹ 5 جولائی کو پیش ہوگا ۔ بجٹ سیشن کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ۔ نریندر مودی پہلے سے زائد اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آئے ہیں اور کانگریس پارٹی مسلسل دوسری مرتبہ مسلمہ اپوزیشن کا موقف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔ دوسری مرتبہ کامیابی میں اہم رول ادا کرنے والی گجرات کی جوڑی توجہ کا مرکز رہے گی ۔ امیت شاہ راجیہ سبھا میں تھے لیکن دوسری میعاد میں ملک کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے لوک سبھا میں دکھائی دیں گے۔ نریندر مودی نے مختلف اہم وزارتوں کے امور کی نگرانی کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور امیت شاہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے نریندر مودی کے بعد نمبر 2 پوزیشن حاصل کرچکے ہیں۔ مودی جب گجرات کے چیف منسٹر تھے تو امیت شاہ ان کے وزیر داخلہ تھے۔ اب تو وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ کیا گجرات کے تجربات کو ملک بھر میں دہرایا جائے گا ؟ امیت شاہ اور ان کے مملکتی وزیر نے ذمہ داری سنبھالتے ہی متنازعہ بیانات کا آغاز کردیا ہے ۔

امیت شاہ کو غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک سے نکالنے کی فکر ہے تو ان کے نائب کشن ریڈی کو حیدرآباد دہشت گرد سرگرمیوں کا مرکز دکھائی دے رہا ہے ۔ کشن ریڈی جب تک اسمبلی کے رکن رہے، انہیں ایسا دکھائی نہیں دیا، مرکزی مملکتی وزیر داخلہ بنتے ہی وہ کونسی عینک لگ چکی ہے جس سے حیدرآباد دہشت گردی کا مرکز دکھائی دے رہا ہے ۔ امیت شاہ کے وزیر داخلہ بنتے ہی سنگھ پریوار اور زعفرانی بریگیڈ کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے پہلے سیشن میں امیت شاہ کی ذہنیت اور منصوبے آشکار ہوجائیں گے ۔ لوک سبھا میں وزراء کی صفوں سے کئی نامی گرامی چہرے غائب رہیں گے اور ان کی جگہ نئے چہرے دکھائی دیں گے ۔ ارون جیٹلی اور سشما سوراج کی عدم شمولیت کے پس پردہ عوامل آج بھی صیغہ راز میں ہیں۔
حکومت کی دوسری میعاد اور امیت شاہ کے وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز ہوتے ہی ملک بھر میں قومی شہریت رجسٹر کے نفاذ اور طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا ۔ بی جے پی کے ایجنڈہ میں یہ نکات پہلے سے موجود ہیں لیکن اقتدار ملتے ہی اس قدر عجلت میں یہ فیصلہ ہوگا ، اس کی توقع نہیں کی گئی ۔ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ جس طرح آسام میں غیر قانونی شہریوں کا پتہ چلانے کیلئے قومی شہریت رجسٹر متعارف کیا گیا ، اس پر ملک بھر میں عمل کیا جائے گا ۔ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو اس رجسٹر کے ذریعہ ہندوستانی شہریت سے محروم کردیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے دنیا بھر کے ممالک سے پناہ گزین کے طور پر آئے ہوئے ہندو خاندانوں کو ملک کی شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بنگلہ دیش اور برما سے آکر کئی برسوں سے مقیم خاندانوں کو شہریت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ سے پہلے ہی آر ایس ایس پریشان ہے، لہذا وہ غیر قانونی مقیم خاندانوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ NRC پر عمل آوری آسام کے بعد مغربی بنگال میں کی جائے گی جہاں بنگلہ دیش سے مسلمانوں کی آمد کا الزام ہے ۔ ویسے بھی بی جے پی مغربی بنگال میں قدم جمانے کیلئے بے چین ہیں اور لوک سبھا انتخابات میں اس نے بہتر مظاہرہ کیا ۔ اس کی نظریں اب ریاست کے اقتدار پر ہے اور ممتا بنرجی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے این آر سی پر عمل آوری مددگار ثابت ہوسکتی ہے ۔ این آر سی کے نام پر غیر قانونی مقیم افراد کے علاوہ حقیقی ہندوستانی شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے جو کئی مسئلوں سے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کرچکے ہیں ۔ بی جے پی سے انصاف کی امید کیسے کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی نظر میں ہر مسلمان پاکستانی ہے۔ مرکزی حکومت طلاق ثلاثہ بل کو دوبارہ راجیہ سبھا میں متعارف کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ راجیہ سبھا میں اگرچہ بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں لیکن وہ بل کی کامیابی کے لئے کوشش ضرور کرے گی ۔ 2021 ء میں راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوجائے گا جس کے بعد وہ اپنی من مانی کرسکتی ہے۔ نریندر مودی کو دوبارہ اقتدار کے ساتھ ہی بیف کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے ۔ پہلی میعاد میں ان واقعات کا آغاز ہوا تھا لیکن انتخابات سے عین قبل حکمت عملی کے تحت یہ سلسلہ ترک کردیا گیا ۔ اب جبکہ مودی پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں اور امیت شاہ جیسی شخصیت ملک کے وزیر داخلہ ہیں تو پھر گاؤ دہشت گردوں کو کس بات کا خوف ہوگا۔ قانون پر عمل کرنے والے خود ان کے سرپرست ہیں ، لہذا وہ بے خوف ہوکر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ مودی کی حلف برداری سے لے کر آج تک تقریباً 5 واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بہار کے بیگو سرائے میں مسلم نوجوان کو نام پوچھ کر گولی ماردی گئی ۔ دہلی میں نماز سے واپس ہونے والے نوجوان کی ٹوپی اچھال دی گئی اور اسے مشرکانہ نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ راجستھان اور اترپردیش میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں ۔ 2010 ء سے 2017 ء تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیف کے نام پر تشدد کے 63 واقعات پیش آئے، جن میں 28 افراد کو ہلاک کیا گیا، ان میں 24 مسلمان تھے۔ 124 افراد ان واقعات میں زخمی ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کا سختی سے نوٹ لیتے ہوئے ریاستوں کو نوڈل آفیسرس کے تقرر کی ہدایت دی۔ اس کے باوجود واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر ان واقعات کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟ کیا مسلمان حشرات الارض کی طرح لاچار اور مجبور ہوکر اپنی قربانی دیتے رہیں گے ۔ ہندوستان کے دستور نے ہر شہری کو حفاظت خود اختیاری کا حق دیا ہے۔ اگر ہمیں ہجومی تشدد کو روکنا ہے تو صرف حکومت پر انحصار کرنا فضول ہے۔ برخلاف اس کے ہم خود احتیاطی تدابیر اور حفاظت خود اختیاری کا راستہ اختیار کرلیں جس سے گاؤ دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے ۔ حفاظتِ خود اختیاری کوئی غیر قانونی عمل نہیں ہے بلکہ یہ دستور اور قانون کے دائرہ میں اپنی حفاظت کیلئے ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
اک نئے خوف کا جنگل ہے مرے چاروں طرف
اب مجھے شیر نہیں گائے سے ڈر لگتا ہے