اترپردیش ذمہ دار عہدیداروں کی غیر ذمہ داری

   

پی چدمبرم

ایک نوجوان لڑکی نئی دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہوکر 29 ستمبر 2020 کو اپنی زندگی کی لڑائی ہار جاتی ہے۔ 22 ستمبر کو اس نے مجسٹریٹ کے روبرو اپنا جو بیان قلمبند کروایا تھا اس میں کہا تھا کہ 14 ستمبر کو اس کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی تھی اور اسے شدید زدوکوب کیا گیا تھا۔ اس متاثرہ لڑکی نے اس گھناونے جرم کے ارتکاب کے ضمن میں اپنے ہی گاؤں بولگڑھی ضلع ہاتھرس اترپردیش کے چار نوجوانوں کے نام لئے۔ جب وہ لڑکی موت کی آغوش میں پہنچ گئی تب پولیس والوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی نعش گاوں لے آئی اور 30 ستمبر کو رات ڈھائی بجے آخری رسومات انجام دے ڈالی۔

وہ لڑکی ایک غریب دلت خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس جرم کے سلسلہ میں جن چار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ان کے رشتہ داروں نے متوفیہ کے خاندان کو ایسی ’’نچلی قوم‘‘ قرار دیا جنہیں وہ ایک لکڑی سے بھی نہیں چھوئیں گے۔ جہاں تک ہندوستان میں اس طرح کے واقعات کا سوال ہے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں بول گڑھی ہیں اور ان گاؤں یا دیہاتوں میں چند ایک دلت خاندان آباد ہیں۔ دلت تھوڑی سے اراضی کے مالک ہوتے ہیں یا پھر ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہوتی یعنی وہ بے زمین ہوتے ہیں اور عام طور پر یہ دلت الگ ٹھلگ بستیوں میں رہتے ہیں۔ ان کا درجہ کمتر ہوتا ہے اور ایسے کام کرتے ہیں جو بہت ہی کم اجرت کے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ ان ذاتوں کے ماننے والوں پر منحصر ہوتے ہیں جن کی ذات پات کے نظام میں اجارہ داری ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ متوفیہ لڑکی کے والد دو بھینسوں اور دو بیگھا زمین کے مالک ہیں اور محلہ کے اسکول میں صاف صفائی کرنے کا جز وقت کام کرتے ہیں۔ماضی میں دلتوں کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا تاہم مہاتما بھولے پیریار، ای وی راما سوامی، بابا صاحب امبیڈکر اور دوسرے سماجی مصلحوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں دلتوں نے کچھ ریاستوں میں خود کو سیاسی طور پر منظم کیا۔ اس کے باوجود ان کی حالت زار میں معمولی بہتری آئی۔

عصمت ریزی تیزی سے بڑھتا جرم
حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستان میں عصمت ریزی کے واقعات بڑی تیزی سے پیش آرہے ہیں یعنی خواتین کے خلاف اس گھناؤنے جرم کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی مختلف ڈیٹا تیار کرتا ہے، اسی کے ڈیٹا کے مطابق 2019 میں عصمت ریزی کے 32033 واقعات (بشمول POCSO کے واقعات) پیش آئے ہیں۔ ان میں سے صرف ریاست اترپردیش میں پیش آنے والے واقعات کی تعداد 3065 ہے۔ ریپ کے کئی کیسیس جرائم کے طور پر درج کئے جاتے ہیں ان کی تحقیقات ہوتی ہیں اور مقدمے چلائے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں آپ کو بتادیں کہ صرف 28 فیصد مجرمین کو سزا ہوتی ہے یا سزا سنائی جاتی ہے، اگرچہ کہیں عصمت ریزی کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہاں کچھ دنوں کے لئے زبردست شور و غوغہ بپارہتا ہے۔ احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں اور کچھ دن اسی طرح کے حالات رہتے ہیں اور پھر سب خاموش ہو جاتے ہیں اور بعض واقعات تو ’’ایونٹس‘‘ بن جاتے ہیں اور بولا گڑھی کا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔

بولا گڑھی کیس ایک ایسی مثال ہے جہاں چاندپا پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاوز آفیسر سے لے کر ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور جواہر لال نہرو میڈیکل کالج اور ہاسپٹل علی گڑھ سے لے کر ضلعی مجسٹریٹ (ڈی ایم) سے لے کر اے ڈی جی پی کے عہدہ پر فائز پر عہدہ دار اور یہاں تک کہ ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر تمام کے تمام ایک خاص وائرس سے متاثر ہوگئے ہیں اور وہ وائرس استثنیٰ کا وائرس ہے یعنی یہ تمام کے تمام بری الذمہ ہوئے ہیں اسی طرح جیسے کورونا وائرس کی عالمی وباء نے دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کو متاثر کیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ خود کو استثنیٰ رکھنے یا بری الذمہ قرار دینے کا انفکشن اترپردیش کے سرکاری عہدہ داروں کو شدید متاثر کرچکا ہے اور یہ بات ان لوگوں کے الفاظ جملوں اور اقدامات سے صاف ظاہر ہورہی ہے۔ اسٹیشن ہاوز آفیسر متاثرہ لڑکی کی نازک حالت کو دیکھتا ہے، اس کی ماں اور بھائی کے بیانات کی سماعت کرتا ہے، پھر لڑکی پر حملے کے ساتھ ساتھ اقدام قتل کا مقدمہ درج کرکے اسے علی گڑھ کے ایک اسپتال سے رجوع کرتا ہے لیکن طبی جانچ کے لئے کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا، اسے لڑکی کے ماں اور بھائی کا بیان سننے کے بعد بھی جنسی حملے کا شک نہیں ہوتا۔ ٭ دوسری طرف ایس پی واقعہ کے اندرون 72 گھنٹے طبی جانچ کروانے میں ناکامی کی یہ کہتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ اس کیس میں کچھ خلیج باقی رہ گئی اور ہم تمام کو مل کر اس ضمن میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈرانا دھمکانا
٭ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ متاثرہ خاندان سے یہ کہتے ہوئے ویڈیو میں قید ہو جاتا ہے کہ ’’میڈیا والے تو ایک یا دو دن میں چلے جائیں گے اور صرف ہم تم لوگوں کے ساتھ ہوں گے‘‘ اس بارے میں متوفیہ لڑکی کے بھائی کا کہنا ہے کہ ڈی ایم نے یہ بھی کہا کہ اگر تم لوگ کہتے ہو کہ لڑکی کورونا وائرس سے ہلاک ہوئی ہے تو پھر معاوضہ بھی ملے گا۔ ٭ حد تو یہ ہے کہ ریاست کے اے ڈی جی پی (لا اینڈ آرڈر) نے پرزور انداز میں یہ کہا کہ متاثرہ لڑکی کا عصمت ریزی نہیں کی گئی کیونکہ فارنسک رپورٹ کے مطابق اس کے اندام نہانی کے اندر یا باہر مادمنویہ کے نشانات نہیں پائے گئے جبکہ اندام نہانی پر جو زخم تھے وہ مندمل ہوچکے تھے یعنی وہ پرانے زخم تھے (انہیں تعزیرات ہند کی دفعہ 375 اور اس موضوع پر قانون کا مطالعہ کرنا چاہئے)۔ ٭ اترپردیش کے عہدہ داروں نے متوفیہ لڑکی کے گاؤں کی تالہ بندی کردی اور سی آر پی سی کی دفعہ 144 کا نفاذ عمل میں لایا تاکہ ہاتھرس ضلع کی سڑکوں پر لوگ جمع نہ ہونے پائے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ میڈیا اور سیاسی نمائندوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی۔ ٭ حکومت اترپردیش نے سی بی آئی تحقیقات کی سفارش کی ہے جبکہ پہلے یہ تحقیقات ایس آئی ٹی کے حوالہ کی گئی تھی۔ دوسری طرف حیرت کی بات یہ ہیکہ اترپردیش پولیس نے اس واقعہ کو یوپی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے رچی گئی ایک سازش قرار دیتے ہوئے نامعلوم افراد کے خلاف کئی ایف آئی آر درج کئے اور پھر ایک صحافی کو بغاوت اور غداری کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔

آخر ناانصافی کیوں؟
ایک ایسی ریاست جہاں چیف منسٹر شری آدتیہ ناتھ کی انتظامیہ پر اچھی گرفت ہے ایسے میں کیا یہ ممکن ہے کہ مذکورہ عہدہ داروں کی جانب سے کئے گئے اقدامات اور بیانات چیف منسٹر کے علم میں نہیں ہوں گے۔ آپ کو بتادیں کہ یہ واقعہ 14 ستمبر کو پیش آتا ہے اور چیف منسٹر کا پہلا بیان 30 ستمبر کو منظر عام پر آتا ہے اور وہ بھی ایس آئی ٹی کی تشکیل کے بعد انہوں نے بیان دیا تھا۔