اتر پردیش وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی چھٹی کا وقت!

   

ظفر آغا

ہاتھرس ہنگامے کے فوراً بعد سابق کانگریس صدر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے استعفیٰ کی مانگ کر ڈالی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی یہ مانگ بیجا نہیں تھی۔ اتر پردیش کوئی معمولی صوبہ نہیں ہے۔ آبادی کے اعتبار سے یو پی کی کل آبادی تقریباً پورے یورپ کی آبادی کے برابر ہے۔ پھر ملک کی پارلیمنٹ میں یو پی سب سے زیادہ 80 ممبران بھیج کر سیاست پر سب سے زیادہ اثرانداز رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہم صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی سیاسی اہمیت ملک کے وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اسی اتر پردیش کا یہ عالم ہے کہ وہاں ایک آگ لگی ہے۔ آئے دن آبرو ریزی کی خبریں، پولیس کے انکاؤنٹر، شدت سے بڑھتی کووڈ سے ہونے والی اموات اور اس پر سے پولیس کی بالادستی جیسی منفی خبریں آئے دن وہاں سے آتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ ہر مورچے پر بری طرح ناکام ہیں۔ وہ اب محض ناکام ہی نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کو بے غیرتی پر اتر آئے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ ہاتھرس میں ہونے والی آبرو ریزی کو یوپی پولیس غیر ملکی سازش بتا رہی ہے۔ یہ بے غیرتی اور بے شرمی نہیں تو اور کیا ہے۔

لیکن یوگی آدتیہ ناتھ اور شرم! ان دونوں کا آپس میں دور دور کوئی ناطہ نہیں ہے۔ اگر آپ یوگی جی کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو یہ احساس ہوگا کہ یہ تو یو پی کی بدنصیبی ہی تھی کہ اس کو یوگی جیسا وزیر اعلیٰ نصیب ہوا۔ جس وقت یوگی وزیر اعلیٰ بنے تو اس وقت ان پر آدھے درجن کرائم معاملات کے مقدمے چل رہے تھے۔ کہتے ہیں ایک مقدمہ قتل کے الزام کا یو پی ہائی کورٹ کے سامنے زیر غور تھا۔ یوگی جی جیسے ہی وزیر اعلیٰ بنے، ان کی سرکار نے حکومت کے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے سارے مقدمے ختم کر دئے اور اس طرح یو پی کو ایک ‘دبنگ’ وزیر اعلیٰ مل گیا۔
برسراقتدار آتے ہی یوگی کی تین پالیسیاں بہت کھل کر سامنے آ گئیں۔ اولاً، یوگی جی نے یو پی پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی، نتیجہ سامنے ہے۔ پردیش میں اب تک کوئی ساڑھے تین ہزار انکاؤنٹر ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 119 افراد ان انکاؤنٹرس میں مارے جا چکے ہیں۔ حال میں یو پی کے شہر کانپور کے ایک دبنگ وکاس دوبے کا جس طرح انکاؤنٹر ہوا وہ سب کو پتہ ہی ہے۔ پھر یو پی حکومت جلد ہی ایک ایسی پولیس فورس بنانے جا رہی ہے جو کسی کو بھی اس کے گھر میں گھس کر بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتی ہے۔ لب و لباب یہ کہ یو پی میں غنڈوں کا نہیں پولس کا جنگل راج چل رہا ہے۔ ہاتھرس اس کی ایک مثال ہے کہ جہاں بڑے سے بڑے لیڈر کو داخل ہونے پر ڈنڈوں سے نوازا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب یوگی جی کی ایما پر ہو رہا ہے جو ان کی پالیسی ہے۔

یوگی حکومت کی دوسری پالیسی ریاست میں ٹھاکرواد کا کھلا ذات پات پر مبنی راج چلانا ہے۔ یو پی کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہاں اگر ملائم سنگھ یا اکھلیش آتے ہیں تو ریاست میں کھلے بندوں یادووں کا زور ہو جاتا ہے۔ جب مایاوتی تشریف لاتی ہیں تو ان کی ذات کے جاٹو آگ موتنے لگتے ہیں۔ اب جب یوگی آدتیہ ناتھ برسراقتدار آئے تو انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ذات پات کا زور ختم کر دیں گے۔ لیکن ہوا کچھ الٹا۔ انھوں نے خود اپنی ذات کے ٹھاکروں کو کھلی چھوٹ دے دی اور ان کو جیسے اشارہ مل گیا کہ وہ اب پچھڑی ذاتوں اور دلتوں کو سبق سکھائیں۔ ٹھاکروں کے مظالم اس قدر بڑھے کہ ہاتھرس جیسے واقعات ہونے لگے۔ لیکن حکومت اور پولیس سارے معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس طرح یوگی جی کی حمایت میں یو پی کا ٹھاکر ووٹ بینک پکا ہو جائے تاکہ ان کو آگے سیاست کرنے میں آرام رہے۔ الغرض یوگی راج میں کھلا اعلیٰ ذات شاسن چل رہا ہے جس میں ٹھاکروں کو کھلی چھوٹ ہے۔

پھر یوگی جی جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس کو مسلمان سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ بی جے پی کا بس چلے تو ایک بابری مسجد کیا ملک کی ساری مساجد ڈھیر کروا دے۔ پھر یوگی جی بذات خود اسی بی جے پی میں سونے پر سہاگہ ہیں۔ اگر آپ یوگی جی کے شہر گورکھپور جائیں تو آپ کو لوگ بتائیں گے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف چناؤ میں کیسی کھلی تقریر کرتے تھے۔ “اگر تم (مسلمان) ایک مارو گے تو ہم (ہندو) سو ماریں گے”، جیسے ان کے جملے آج بھی لوگوں کو گورکھپور میں یاد ہیں۔ تب ہی تو جب اتر پردیش میں سی اے اے مخالف مظاہرے ہوئے تو کیا عورت اور کیا مرد، ہر کسی کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ اور تو اور ان کی املاک قرق کر لی گئیں۔ حکومت نے ان کو بدنام کرنے کو سڑکوں کے کنارے بحیثیت مجرم ان کی تصویروں کے ساتھ بڑی بڑی ہورڈنگ نصب کر دیں۔ الغرض یوگی جی کی سیاست سے کھلی مسلم منافرت کی بو آتی ہے جو ان کی حکومت کی کھلی پالیسی ہے۔
الغرض یوگی جی جن کو مہاراج کہا جاتا ہے، انھوں نے اپنے راج میں قہر ڈھا رکھا ہے۔ حکومت میں خالص زمیندارانہ طرز پر کام چل رہا ہے۔ کسی کو چوں کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی منھ کھولتا ہے تو اس پر پولیس کا قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جب راہل گاندھی اور پرینکا نے یو پی جانے کی کوشش کی تو پہلے روز راہل کو پولس نے دھکے دے کر زمین پر گرا دیا اور ایک دوسرے پولس والے نے پرینکا گاندھی کے گلے پر ہاتھ ڈال دیا۔ دو روز بعد جب کسانوں کے لیڈر جینت چودھری ہاتھرس پہنچے تو پولیس نے ان پر لاٹھیوں کی بارش کر دی۔ الغرض یو پی میں پولس کے ذریعہ یوگی جی کا غندہ راج چل رہا ہے۔

یہ ہے یوگی جی کا اتر پردیش جہاں قانون اور دستور و آئین بالائے طاق رکھے جا چکے ہیں۔ بس یوگی جی کا حکم اور پولیس ڈنڈے کے زور پر ایک ظالم شاہی نظام چل رہا ہے۔ لیکن اب یوپی کا ماحول بدلنے لگا ہے۔ پولس کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود بڑے بڑے لیڈر ہاتھرس پہنچے۔ پھر مغربی اتر پردیش میں کسان حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑے۔ اسی طرح دلت لڑکی کی آبروریزی کے خلاف ہزاروں دلتوں نے مظاہرے کیے۔ لوگ اب یوگی جی سے اوب چکے ہیں۔ اب یوگی خود ہی نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے لیے بھی سر درد بنتے جا رہے ہیں۔ اس لیے خود بی جے پی کے حق میں یہی ہے کہ جلد از جلد یوگی آدتیہ ناتھ کی اقتدار سے چھٹی کر دے۔