اتفاق رائے ایک چیالنج ہوگا۔ سترویں لوک سبھا جس کی آج شروعات ہوئی ہے کہ بی جے پی اپنی اجارہ داری قائم کرے گی

,

   

اتفاق رائے ایک چیالنج ہوگا

نئی دہلی۔ پیر کے روز سے شرو ع ہونے والی سترویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس بی جے پی شروعات سے ہی اپنی اجارہ داری کو قائم کرنے کاکام کرے گی۔

کئی وجوہات کی بناء پر ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ لوک سبھا کافی منفرد ہوگی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کے ایوان میں اپنی ذاتی طاقت کی بنیاد پر غیرکانگریسی حکومت کا دوبارہ انتخاب عمل میں آیاہے۔

اوریہ ایک ایسی لوک سبھا ہے جو دوسری مرتبہ کسی بھی اپوزیشن لیڈر کے بغیر ہوگی۔ اور یہ ایسی پارلیمنٹ ہوگی جس کے دونوں ایوانوں میں اسپیکر اور نائب اسپیکر کا تعلق برسراقتدارپارٹی یا پھر اس کی مرضی کی پارٹی سے ہوگا۔

سال2021تک مذکورہ حکومت کی طاقت راجیہ سبھا میں بھی بڑھ جائے گی۔

ہم کئی مدتوں بعد ایسی پارلیمنٹ دیکھنے جارہے ہیں جس میں برسراقتدار حکومت کا غلبہ ہوگا۔دوزایوں سے بھاری اکثریت کی جیت کا استعمال کیاجاسکتا ہے۔

مذکورہ حکومت اپوزیشن پر اس کا ایجنڈہ گرا سکتی ہے یا پھر اہم موضوعات اور بڑے پیمانے پر عوام کو قائل کرنے راستے اختیار کرسکتی ہے‘ اگر وہ مسئلہ پر اپوزیشن نہیں ہے جہاں پر اتفاق رائے ہے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔

مسئلہ جیسے خواتین کے تحفظات کا بل‘ موسی تبدیلی اور آلودگی کے نقصاندہ اثرات کا ختم کرنے کے لئے اقدامات‘ اور پھر کسانوں کے زمرہ میں ائیں۔

نئی حکومت نے اپنے کچھ اقدامات دیکھائے ہیں جس میں وزیراعظم نے تمام دیہاتوں کے سربراہان کو مکتو ب روانہ کرتے ہوئے بارش کے پانی کی بہتر انداز میں ذخیرہ اندوزی کی ہدایت دی ہے۔

ایک امید ہے کہ ان کی منشاء اس ضمن میں آگے جانے کی اور قانون لانے کی ہے۔ مذکورہ معیشت کے علاقے میں دونوں برسراقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے انتخابی دشمنیوں کو بلائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے۔

جس طرح نریندر مودی حکومت نے اپنی پہلی معیاد میں معاشی مسائل کے لئے کانگریس کو ذمہ دار ٹہرایاتھا ویسا اب نہیں کرنا چاہئے۔

اور اپوزیشن کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ وہ کسانوں کے قرض معافی کے مطالبات سے ہٹ کر کام کرے اور جی ایس ٹی‘ نوٹ بندی وغیرہ جیسے اقدامات پر تنقیدوں سے باز رہے‘ اور معیشت کے بارے میں بات کرے۔

حکومت کے ساتھ ایسے کئی مسائل ہیں جس پر اپوزیشن کی رضامندی ممکن نہیں ہے۔

سارے ملک میں این آر سی کا نفاذ‘ ارٹیکل370اور35اے کا خاتمہ اس میں سے ایک ہے۔ اس حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی ایودھیا معاملے میں قدم اٹھانا پڑے گا۔