افغان شہری سحر و افطار میں سبز چائے اور خشک روٹی پر گزارا کرنے پرمجبور

   

ملک کی 70فیصد آبادی کا امداد پر انحصار ، ذائقہ دار پکوان تو ایک طرف خشک روٹی بھی نصیب نہیں

کابل : رمضان کے مقدس مہینے میں سحر و افطار میں ذائقے دار پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن افغانستان میں غذائی قلت اور خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے شہری اس نعمت سے محروم ہیں۔رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد سے ملک میں خوراک اور بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے اور کئی افغان شہری بیروزگار ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ملک کی 70 فیصد آبادی کا امداد پر انحصار ہے، لیکن یہ امداد بھی اب محدود ہو چکی ہے کیونکہ طالبان حکمران کے تحت ملک میں موجود نامور بین الاقوامی تنظیموں نے اپنا آپریشن بند کرلیا ہے۔مسلم ممالک میں اس مقدس مہینے میں سحر و افطار میں ذائقے دار پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن افغان شہری اس نعمت سے محروم ہیں۔خواتین کے حقوق کی ایک سابق کارکن شمسیہ حسن زادہ نے بتایا کہ ’ماضی میں ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ سیکیورٹی اہلکاروں اور اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے بھی افطار اور سحری کا اہتمام کرتے تھے، لیکن اب ہمارے پاس سبز چائے اور خشک روٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہماری فیملی کے پانچ افراد نوکری کرتے تھے لیکن اب صرف ایک شخص کام پر جاتا ہے اور اس کی آمدنی پوری فیملی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔کابل کی سابق انتظامیہ کے دور میں وزارت دفاع کے لیے بطور ڈرائیور کام کرنے والے محمد نعیم اس بات پر خوش تھے کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے ملک زیادہ محفوظ اور پرامن رہا ہے، لیکن ملک کی معاشی صورتحال نے یہ خوشی رائیگاں کردی ہے۔71 سالہ محمد نعیم کو گزشتہ چند ماہ سے پنشن نہیں ملی، ان کا کہنا تھا کہ ’یقین کریں گھر میں معاشی مسائل کی وجہ سے پچھلے دو سالوں میں اپنے لیے ایک کپڑا نہیں خرید سکا۔‘انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ہم افطار اور سحری میں مختلف قسم کے کھانے کھاتے تھے لیکن اب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔محمد نعیم کہ کہنا تھا کہ ’اگر میں گوشت کھاتا ہوں، تو وہ کسی خیراتی ادارے سے آتا ہے، لیکن میں اپنے گھر والوں کے لیے مارکیٹ سے کچھ خرید نہیں سکتا۔‘خواتین کے حقوق کی کارکن کرشمہ نظری نے کہا کہ دن بھر روزہ رکھنے اور پھر افطار اور سحری میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہونا میرے لیے اور کئی افغان خاندانوں کے لیے انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہے، ہم میں سے اکثر کے پاس سبز چائے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بہت سے امیر لوگ تھے جو غریب لوگوں کی مدد کرتے تھے لیکن طالبان کے آنے کے بعد وہ لوگ بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔