امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے

   

’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ ۔بدل کر ۔’’جیب ہے تو جان ہے‘‘
کورونا میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ … طلبہ اور جہد کاروں کی گرفتاریاں

رشیدالدین
’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا لاک ڈاؤن کے آغاز پر یہ نعرہ لگاتے ہوئے تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ حکومت کے نزدیک انسانی جان کی کیا اہمیت ہے ۔ کورونا کی وباء سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا لیکن 70 دن گزرنے کے باوجود کورونا پر کنٹرول میں حکومت ناکام ہوگئی ۔ کورونا کیسیس میں کمی کے بجائے روز افزوں اضافہ ہونے لگا اور ہلاکتیں بھی تشویشناک حد تک بڑھ گئیں۔ مودی حکومت کا غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن بری طرح ناکام ہوگیا ہے ۔ عوامی زندگی کے تحفظ کے بجائے خطرہ مزید بڑھ گیا۔ 70 دن گزرنے کے باوجود حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہونے لگے۔ حکومت نے عوامی زندگی کے بجائے سرکاری خزانہ کی فکر شروع کردی۔ خالی خزانہ کو بھرنے معیشت میں سدھار کے نام پر لاک ڈاؤن میں رعایتوں کا اعلان کردیا گیا۔ لاک ڈاون کے آغاز کے وقت حکومت کا جو موقف تھا، اس سے انحراف اور یو ٹرن لیتے ہوئے حکومت نے عوامی زندگی کے تحفظ کی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ لیا۔ حکومت کا تازہ موقف یہ ہے کہ کورونا کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن عوام کو سیکھ لینا چاہئے ۔ ابتداء میں معیشت پر انسانی جانوں کو ترجیح دی گئی لیکن ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کا نعرہ بدل کر ’’جیب ہے تو جان ہے‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ جب جان ہی باقی نہ رہے تو جیب کو لیکر کیا کریں گے ۔ زندگی سلامت رہے تو معیشت کبھی بھی سدھر جائے گی ۔ دراصل مودی حکومت عوامی زندگی کے تحفظ میں ناکامی کی پردہ پوشی کے لئے معیشت میں سدھار کا نعرہ لگا رہی ہے۔ کانگریس قائد راہول گاندھی نے 12 فروری کو ٹوئیٹر پر کورونا کے خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کورونا وائرس نہ صرف عوام بلکہ معیشت کو سنگین خطرہ ہے اور حکومت اس خطرہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ راہول کے اس ٹوئیٹ پر بی جے پی نے ان کا مذاق اڑایا تھا اور مرکزی وزیر صحت نے کہا تھا کہ کورونا ہندوستان کے لئے خطرہ نہیں ہے ۔ حکومت کی سرگرمیاں جاری رہیں جبکہ کورونا نے ہندوستان پر دستک دے دی تھی۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی 23 مارچ تک جاری رہا لیکن حکومت جب تک خواب غفلت سے بیدار ہوتی، کورونا ہندوستان میں پیر پھیلا چکا تھا ۔ پہلے ایک روزہ جنتا کرفیو اس کے بعد لاک ڈاؤن کا اعلان جس کی چار مراحل میں توسیع کی گئی ۔ لاک ڈاؤن کا مقصد مرض کو پھیلنے سے روکنا تھا ۔ اب جبکہ مریضوں اور اموات کے اعتبار سے ہندوستان دنیا کی فہرست میں اوپر بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں مزید سختی کے بجائے نرمی باعث حیرت ہے۔ جن سرگرمیوں سے کورونا پھیلاؤ کا خطرہ ہے ، ان پر پابندی برخواست کرتے ہوئے حکومت نے عوامی زندگی سے کھلواڑ کیا ہے ۔ تحدیدات میں نرمی اور معمولاتِ زندگی کی بحالی سے جو اموات واقع ہورہی ہیں، اس کے لئے حکومت ذمہ دار ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ وباء کے پھیلاؤ سے روزانہ سینکڑوں افراد کا خون ناحق حکومت اور حکمرانوں کی گردن پر ہے ۔ حکمرانوں میں انسانی ہمدردی ضروری ہے لیکن ایسے حکمراں جنہوں نے گجرات فسادات میں ہزاروں بے قصوروں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے، ان کے دل میں انسانیت اور ہمدردی کا تصور کرنا فضول ہے۔ معیشت میں سدھار کے لئے انسانی جانوں کی بلی اور بھینٹ چڑھائی جارہی ہے ۔ کیسیس کے آغاز پر جب لاک ڈاون میں سختی کی گئی تو اب جبکہ صورتحال دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے ۔ تحدیدات میں نرمی کا کیا جواز ہے؟ کم کیسیس میں لاک ڈاون کا فیصلہ درست تھا یا پھر کیسیس کی زیادتی میں نرمی کا فیصلہ درست ہے ؟ جب ہجوم کے نام پر عبادت گاہوں کو بند کردیا گیا لیکن آج مزید خطرہ کے باوجود عبادت گاہوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ حکومت نے کورونا سے لڑائی کیلئے عوام کو میدان میں اتار دیا ہے اور اس جنگ میں حکومت تماش بین بن چکی ہے۔ صورتحال کی آنے والے دنوں میں مزید ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں ضلع کلکٹرس کو خفیہ احکامات کے ذریعہ شمشان اور قبرستان کی اراضی تیار رکھنے کی ہدایت دی گئی۔ ظاہر ہے کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ کورونا کا قہر ہندوستان میں کس طرح عوام پر ٹوٹے گا۔ دستور ہند نے صحت عامہ اور عوامی زندگی کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی ہے لیکن مودی حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ کورونا کی آڑ میں خانگی ہاسپٹلس کی آؤٹ پیشنٹ خدمات اور ڈسپنسریز کو بند کردیا گیا۔ دیگر امراض کے شکار افراد ہاسپٹل جانے سے گھبرا رہے ہیں۔ سرکاری ہاسپٹل سے رجوع ہوتے ہی کورونا کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے دہشت بٹھادی جاتی ہے اور اسی ہیبت سے کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ تلنگانہ میں بھی کورونا کیسیس میں اضافہ پر کے سی آر حکومت کی بے حسی نے عوام کو روم کے شہنشاہ نیرو کی یاد دلادی ہے ۔ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ ۔ کے سی آر بھول گئے ، جب انہوں نے کہا تھا کہ معیشت بعد میں بحال ہوسکتی ہے لیکن انسانی جان واپس نہیں لائی جاسکتی ۔ عبادت گاہوں کو بند رکھتے ہوئے شراب کی دکانات کو کھول دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق جب سے شراب کی دکانات کو کھول دیا گیا ، اس وقت سے کورونا ملک میں بے قابو ہوگیا۔ گویا کہ اسے بھی نشہ چڑھ گیا ہو۔ الغرض عوام کی زندگی سے بے پرواہ حکومتیں وطن اور معیشت کو بچانے کے نام پر عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ان نادانوں کو کوئی سمجھائے کہ عوام کے بغیر وطن کا تصور ادھورا ہے اور عوام باقی رہیں گے تو معیشت بھی زندہ رہے گی ۔

ملک میں ایک طرف کورونا کا قہر جاری ہے تو دوسری طرف نریندر مودی حکومت کا فرقہ وارانہ ایجنڈہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ وباء ہو یا تباہی بی جے پی حکومت کو اپنے ایجنڈہ کی فکر ہے۔ عوام کی کورونا سے موت اور ہزاروں خاندانوں کے غم سے حکومت کو کووئی سروکار نہیں۔ فکر بس اس بات کی ہے کہ اپنا نفرت کا ایجنڈہ کسی طرح رکنے نہ پائے۔ ایسے وقت جبکہ ساری دنیا کورونا کے قہر سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے، نریندر مودی حکومت نے عوامی زندگی کے تحفظ کی فکر کرنے کے بجائے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ مخالف شہریت قانون احتجاج میں حصہ لینے والے جے این یو اور جامعہ ملیہ کے طلبہ کے علاوہ جہد کاروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران یہ گرفتاریاں باعث حیرت ہیں۔ کورونا لاک ڈاون کے آغاز کے بعد سے ملک میں شہریت قانون ، این پی آر اوراین آر سی کے خلاف احتجاج کو ملتوی کیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا ڈر ہے کہ لاک ڈاون کے بعد دوبارہ احتجاج شروع ہوجائے گا۔ لہذا احتجاجیوں کے حوصلے پست کرنے کیلئے بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں شروع کردی گئیں۔ دستور میں ہر شہری کو حکومت کے کسی بھی فیصلہ کے خلاف احتجاج کا حق دیا ہے لیکن نریندرمودی حکومت کو نہ ہی دستور کا پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی وہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کیرالا میں ایک حاملہ ہتھنی کی موت کو لے کر بی جے پی نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ منیکا گاندھی نے کیرالا کے ملاپورم ضلع کو نشانہ بنایا کیونکہ یہ ضلع مسلم اکثریتی ہے۔ حالانکہ ہتھنی کی موت کے واقعہ کا اس ضلع سے کوئی تعلق نہیں۔ بی جے پی کو صرف لفظ مسلمان سے نفرت ہے اور وہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ حاملہ ہتھنی کی موت پر یقیناً ہر کسی کو افسوس ہے اور خاطیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے لیکن ہتھنی کی موت کا ماتم کرنے والوں کو اس جہد کار کی فکر کرنی چاہئے جو گزشتہ دو ماہ سے جیل میں بند ہیں اور حاملہ ہونے کے باوجود انہیں ضمانت سے انکار کیا جارہا ہے ۔ انسانوں سے زیادہ بی جے پی کے پاس جانوروں سے ہمدردی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ملک میں فرقہ پرستی کی موجودہ لہر 73 سالہ آزادی کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ جانوروں کے یہ ہمدرد اس وقت کہاں تھے جب گجرات اور دہلی کے فسادات میں حاملہ خواتین کا بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا اور ان کے حمل کو نیزوں پر اچھالا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ جانوروں کے ہمدرد وہی سبق دہرائیں گے جو سنگھ پریوار نے انہیں پڑھایا ہے۔ احمد فراز کا یہ شعر ملک کے موجودہ حالات پر صادق آتا ہے ؎
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنام وطن