انتخابات اور عوامی مسائل پر توجہ

   

سابقہ کئی وعدے آج تک ادھورے ہیں
کیوں نئے مسائل اب یاد آگئے تم کو
انتخابات اور عوامی مسائل پر توجہ
ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کا بگل عملا بج چکا ہے ۔ اہم سیاسی جماعتیں اپنے منصوبوں پر عمل آوری بھی شروع کرچکی ہیں۔ برسر اقتدار بی جے پی نے عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اعلی ذات کے معاشی کمزور طبقات کو 10 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کئی دوسرے اقدامات کا اعلان بھی کرسکتی ہے جن سے عوام کی تائید حاصل کی جاسکے ۔ کانگریس پارٹی تین ریاستوں میں اپنی کامیابی کے بعد پرجوش ہے اور وہ بھی لوک سبھا انتخابات کیلئے حکمت عملی کی تیاری میں مصروف ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نشستوںپر کامیابی حاصل ہو۔ پارٹی صدر راہول گاندھی اس منصوبے کے تحت مسلسل سرگرم ہیں۔ وہ ملک و بیرون ملک میں اپنے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں اور عوام کی تائید حاصل کرنے کوشاںہیں۔ ساتھ ہی ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے حساس ترین ریاست اترپردیش میں دو اہم علاقائی جماعتوں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے باہمی اتحاد کا اعلان کردیا ہے اور اب یہ دونوں جماعتیں 38, 38 نشستوں پر مقابلہ کرینگی ۔ راہول گاندھی اور سونیا گاندھی کے خلاف ان دونوں نے مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مزید دو نشستیں ابھی دوسری جماعتوں کیلئے چھوڑی گئی ہیں۔ حالانکہ ابھی نشستوں اور حلقوں کا انتخاب نہیں ہوا ہے لیکن ان دونوں پارٹیوں نے بھی اپنا انتخابی عمل شروع کردیا ہے ۔ ان جماعتوں نے اپنے اتحاد کو انتخابات سے چند ماہ قبل قطعیت دیتے ہوئے سیاسی حکمت عملی سے کام لیا ہے تاکہ دونوں جماعتوں کے حامیوں اور کیڈر میں کوئی غلط فہمی رہنے نہ پائے اور ایک دوسرے کے ووٹ مکمل حاصل کئے جاسکیں۔ دوسری جماعتیں بھی علاقائی سطح پر اپنی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہار میں این ڈی اے نے نشستوں کی تقسیم کا فارمولا تیار کرلیا ہے ۔ یہاں یو پی اے کے مابین ابھی یہ تقسیم باقی ہے ۔ دوسری علاقائی جماعتیں بھی اپنے طور پر کوشاں ہے کہ کوئی اتحاد ہوجائے ۔ تلگودیشم ‘ ٹی آر ایس اور ترنمول کانگریس بھی اس سلسلہ میں سرگرم ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی ان تیاریوں پر ایک دوسرے کی جانب سے تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ کوئی اس کا خیر مقد م کر رہا ہے تو کوئی اس کی مذمت کر رہا ہے تاہم ان ساری سرگرمیوں میں عوام کو درپیش مسائل کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ کل وزیر فینانس ارون جیٹلی نے بھی ایک تقریر کی تھی جس میں پارٹی ورکرس سے کہا گیا تھا کہ وہ انتخابی مہم میں ساری توجہ مودی کی شخصیت پر رکھیں ۔ اس طرح یہ واضح پیام دیا گیا ہے کہ انتخابات میں عوامی مسائل کی زیادہ کوئی اہمیت نہیں رہ جائیگی اور شخصیت پرستی کو انتخابات کی بنیاد بنایا جائیگا ۔ یہ جمہوریت کے ساتھ ایک مذاق اور کھلواڑ ہے ۔ مودی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی گذشتہ معیاد کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرے ۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل پر موقف واضح کیا جائے ۔ آئندہ کے منصوبوں سے عوام کو واقف کروایا جائے ۔ جو کام ابھی تکمیل تک نہیں پہونچے ہیں ان کو مکمل کرنے کا فارمولا عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور پھر عوام سے دوبارہ تائید کی اپیل کی جائے ۔ تاہم یہ طریقہ کار شائد اب اہمیت کا حامل نہیں رہا ہے کیونکہ صرف شخصیت پرستی کی بنیاد پر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ طریقہ کار ایسا ہے جس میں جمہوریت میں مرکزی اہمیت کے حامل رائے دہندے کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیںاور انہیں حکومت کی کارکردگی پر غور کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔
ہر الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں میں اتحاد ہوتا ہے اور سابقہ اتحاد ٹوٹتے بھی ہیں۔ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن عوام کی توجہ سے مسائل کو محو کردینا اچھی علامت نہیں ہے ۔ اس کام میں جہاں سیاسی جماعتیں اب تک مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتی رہی ہیں وہیں اب زرخرید میڈیا بھی حصہ دار بن چکا ہے اور شخصیتوں کے ٹکراو کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور عوام کو درپیش سلگتے ہوئے مسائل کو برفدان کی نذر کرنے میں اہم رول ادا کیا جا رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے عوام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے ان ہتھکنڈوں کو سمجھیں اور اپنے ووٹ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مسائل کی یکسوئی اور وعدوں کی تکمیل کو ہی ووٹ دینے کی کسوٹی سمجھیں تاکہ ان جماعتوں کو سبق سکھایا جاسکے ۔