انکاؤنٹر میں ملوث پولیس عہدیدار کی گردن پر تلوار؟

   

سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میںپریشانی،کل سماعت مقرر
حیدرآباد ۔ 9 ڈسمبر ( سیاست نیوز) انکاؤنٹر کے معاملات میں اس کے درست ،فرضی و حقیقی ہونے کے قطعی فیصلہ تک پولیس ملازمین کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔ انکاؤنٹر کے فوری بعدپولیس ملازمین کوحاصل ہونے والی عوامی داد و تحسین اور ان کی ستائش کے اثرات کافی دیر تک انہیں محصوس نہیں کرسکتے بلکہ بہت جلد ہی ان ملازمین کو ازخود محروس کا سبب بن جاتے ہیں اور سرکاری سرویس کی سہولیات محرومی کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ جسٹس فار دیشا جیسے معاملہ میں ہوئے انکاؤنٹر کے بعد عدالتوں میں دائر کی گئی درخواستوں اور عدالت عالیہ کے احکامات کے بعد ان پولیس ملازمین کی الجھنوں میں اضافہ ہوگیا ہے جو قومی سطح پر ریاستی پولیس کی ستائش کا سبب بنے ہیں وہیں سپریم کورٹ کی جانب سے سال 2014ء میں جاری کی گئی سفارشات اور ہدایتوں کے مطابق ان پولیس عہدیداروں کو اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا پڑے گا اور اپنی بے گناہی کیلئے خود ہی جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ انکاؤنٹر کے فوری بعد مقامی پولیس اسٹیشن میں دفعہ 302 کے تحت کیس درج کیا جانا چاہیئے اور اس کیس کے درج ہونے کے ساتھ ہی ان ملازمین کی پریشانیوں کا آغاز ہوتا ہے جو انکاؤنٹر میں حصہ لیتے ہے ۔ حکومت کی جانب سے ہو یا پھر ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ہو انہیں کوئی قانونی امداد نہیں ملتی ۔ سپریم کورٹ کی پیروی یا آمد و رفت کے اخراجات ہوں تمام ان ملازمین پولیس ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ یہ مشکلات ریٹائرمنٹ تک پیچھا نہیں چھوڑتی بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ناقابل برداشت تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ جیسا کہ اس دوران انہیں وہ مرادات نہیں ملتی جو ایک ملازم کو سبکدوشی کے بعد حاصل ہوتی ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر سہولیات بھی روک دی جاتی ہیں ۔ دیشا کے خاطیوں کے خلاف ہوئے انکاؤنٹر میں بھی سپریم کورٹ سے مسئلہ رجوع ہوچکا ہے اور قومی انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے بھی تحقیقات جاری ہیں ۔ انکاؤنٹر میں حصہ لینے والے ملازمین و عہدیداروں کے ساتھ ساتھ ان عہدیداروں کیلئے بھی مشکلات درپیش رہیں گی ۔ انہیں نہ ہی ریٹائرمنٹ کی سہولیات حاصل ہوں گی اور نہ ہی انہیں پی ایف فنڈز سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا اور چند معاملات میں اگر اپنے آپ کو بے قصور ثابت نہیں کردیا جاتا ہے تو پھر سزا بھی ہوسکتی ہے اور ایسا بھی ہونے کے قوی امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں وظیفہ پر حاصل ہونے والی رقم متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ بھی دیا جاسکتاہے ۔ جبکہ دوران خدمات عدالتوں کے چکر کاٹنے کیلئے ہونے والے اخراجات ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ( ٹی ۔اے) کی شکل میں حاصل ہونے کے بہت کم مواقع رہتے ہیں جبکہ زیادہ معاملات میں عدالتوں اور وکیل کا خرچ بھی اپنے آپ ہی برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ انکاؤنٹر میں حصہ لینے والے پولیس ملازمین کو راست اور بالراست اعلیٰ پولیس عہدیداروں کی پشت پناہی اور ان کی مدد تو حاصل رہتی ہے لیکن اگر اعلیٰ عہدیدار کا تبادلہ ہوجائے اور کوئی نیا دوسرا اعلیٰ عہدیدار ان کے مقام پر آجائے تو پھر مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتاہے ، ایسے میں مشکلات بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ سابق میں گجرات میں سہراب الدین انکاؤنٹر میں 8سال کے بعد گرفتاریاں ہوئی تھی ، انکاؤنٹر میں شریک 6 پولیس عہدیداروں کو پانچ سال سے زائد کی سزا ہوئی ۔ مندا مری میں ہوئے انکاؤنٹر میں سب انسپکٹر کو چار سال سخت آزمائشی کا سامنا رہا ۔ چار سال تک تنخواہ نہیں ملی ،اس پر عدالت کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑے ۔ گجرات میں ایک اور انکاؤنٹر سمیر خان ، حاجی اسمعیل اور جعفر کے انکاؤنٹر میں سپریم کورٹ نے 9پولیس ملازمین کو قصوروار ٹھہرایا اور فیصلہ آنے تک پولیس ملازمین کی زندگیاں اجیران بن گئیں ۔ سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی سماعت 11ڈسمبر کو مقرر ہے ۔