اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب پہنچتی ہے

   

اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب پہنچتی ہے اور وہ (کریم) درگزر فرما دیتا ہے (تمہارے) بہت سے کرتوتوں سے۔ (سورۃ الشوریٰ :۴۲)
قرآن کریم نے اہل نعمت کو شکر کا حکم دیا ہے اور اہل بلا کو صبر کی تلقین کی ہے۔ شکر کو نعمت کی بقا اور اس میں اضافہ کا سبب قرار دیا ہے اور صبر کو مصیبتوں اور تکلیفوں سے نجات کا ذریعہ بتایا ہے لیکن عام انسان خوشحالی اور اقبال مندی کے دنوں میں ناشکرے بن جاتے ہیں۔ دولت مند ہیں تو غریبوں اور بےنواؤں پر شفقت کرنے کے بجائے ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ اقتدار بخشا گیا ہے تو ظلم وتعدی کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔ تاجر ہیں تو سادہ لوح گاہک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا ان کا شعار بن جاتا ہے۔ دیانت وامانت کو اپنے کاروباری اداروں سے دھکا دے کر نکال دیتے ہیں اور جب ان کی دھاندلیوں کی حد ہو جاتی ہے اور مکافات عمل کا چکر چلنے لگتا ہے تو پھر چیختے ہیں، چلاتے ہیں، سر پھوڑتے ہیں۔ ان کا ذہن ان اسباب و عوامل کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جو ان کی موجودہ تباہی کا باعث بنے ہیں۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اٹھایا جا رہا ہے اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ ذرا اپنے اعمال نامے پر ایک سرسری نظر ڈالو، ذرا اپنے گریبان میں جھانکو۔ یہ حقیقت خود عیاں ہوجائے گی کہ تمہیں تمہارے کرتوتوں کی سزا مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بڑا کریم ہے۔ اس نے تمہاری بےشمار غلطیوں اور سرکشیوں کو معاف کر دیا ہے۔ اگر تمہیں تمہاری بدکاریوں کی پوری سزا دی جاتی تو تمہارا نام ونشان ہی مٹ گیا ہوتا۔ یہ معاملہ تو سرکشوں اور بیگانوں کا ہے ، لیکن فرمانبردار بندوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے۔