اُردو زبان و ادب کی تاریخ

   

مصنف، سید عبدالمجید …قلمی نام : پروفیسر مجید بیدار… (ممتاز ادیب، ہردلعزیز معلم، پیکر اخلاص، دانشور و شاعر)
مذکورہ کتاب جب میرے مطالعہ میں آئی… پڑھنے کے بعد مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ فاضل مصنف نے
کتاب کی تیاری میں پوری طرح اپنی اردو سے محبت اور اس کے ارتقاء کے لئے بڑی محنت کی ہے۔

سعید حسین
ادب کے طالب علم کے سامنے یہ سوال عام طور پر آتا ہے کہ ادب کسے کہتے ہیں۔ لیکن اس کی تعریف ایک جملے میں آسانی سے نہیں کی جاسکتی۔ کوئی کہتا ہے کہ ادب زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ترجمانی ہی نہیں کرتا بلکہ زندگی کی تنقید بھی کرتا ہے اور اس کی تفسیر پیش کرتا ہے۔ لیکن اجمالی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں روزمرہ کے خیالات سے بہتر اور روزمرہ کی زبان سے بہتر زبان کا اظہار ہوتا ہے۔
ادب انسانی، تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ دیکھتا ہے، جو تجربے حاصل کرتا ہے، جو سوچتا سمجھتا ہے اس کے ردعمل کا اظہار ادب کی شکل میں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب زندگی کے وسیع ترین مسائل کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے ذریعہ پروان چڑھتا ہے۔انسان ادب کے بل بوتے پر زندہ رہتا ہے لیکن ادب انسان کو جینے میں ضرور مدد دیتا ہے۔ اور یہ مدد اس طرح ہوتی ہے کہ ادب جن اقدار کا حامل ہوتا ہے وہ صحت مند ہونے کی بناء پر انسان کے حوصلوں کو بڑھاتا ہے اور اس کے اندر زندہ رہنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے اور اسے صحیح معنوں میں جینے کا سلیقہ آتا ہے۔
دنیا کے کسی ادب نے کبھی مظلوم کے مقابلے میں ظالم کا ساتھ نہیں دیا، اس نے بدصورتی کی اشاعت نہیں کی بلکہ دنیا کو زیادہ حسین بنانے کے لئے بدصورتی کی مذمت کی ہے ادبی طریق کار یہ ہے کہ یہاں حقیقتوں اور اُس سے متعلق قدروں کو سیدھے سادھے طرح سے پیش نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ عمل فلسفہ یا دوسرے سماجی علوم کے لئے مناسب ہے ادب میں قدروں کا اظہار شاعرانہ حقیقت کی شکل میں جذباتی انداز سے کیا جاتا ہے لیکن یہ اظہار محض جذباتی ہوتو اس کا اثر دیرپا نہ ہو۔ چنانچہ اسے خیال انگیز بنایا جاتا ہے۔ خیال انگیزی کا جذبہ بذات خود افادیت پر مبنی ہے۔ ادب میں افادیت کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی مسلم ہوجاتی ہے۔
فاضل مصنف نے ایم اے، ایم فل عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد۔ پی ایچ ڈی پونہ یونیورسٹی سے تکمیل کی۔ اپنی پہلی ملازمت میں 1971ء میں اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے اسٹینڈرڈ پبلک اسکول خلوت سے شروع کی اور صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ کی حیثیت سے 30؍جون 2012ء کو سبکدوش ہوئے۔ آپ کی مرتبہ کتب اور تصانیف تقریباً 30 ہیں ،آپ کی تصانیف پر اُردو اکیڈمی آندھرا پردیش اردو اکاڈمی مہاراشٹرا نے قومی ایوارڈ سے سرفراز فرمایا۔
تحقیقی ، تنقیدی، تاریخی، ادبی اورمذہبی موضوعات پر 700 سے زیادہ مضامین لکھ چکے ہیں۔ آپ کئی ادبی مذہبی انجمنوں کے سرگرم کارکن ہیں۔ دوردرشن حیدرآباد سے ادبی پروگرام اور مشاعروں کی نظامت کی۔ تقریباً 200 کتابوں پر پیش لفظ 300 سے زیادہ کتابوں پر تبصرہ کیا ہے۔ مصنف نے طلباء اور قارئین کی خدمت میں مذکورہ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ حصہ الف میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء کے عنوان سے 6 ابواب کے ذریعہ اُردو زبان کا تعارف پیش کیا ہے جو حسب ذیل ہے۔
الف …(اُردو زبان و ادب کا تعارف)
باب : ۱ اُردو کے معنی و مفہوم
باب : ۲ زبان کی تعریف اور وضاحت
باب : ۳ ادب اور ادبی خصوصیات
باب : ۴ زبان اور ادب میں فرق
باب : ۵ اُردو زبان کا تاریخی ورثہ
باب : ۶ اُردو ایک ہند۔ آریائی زبان
باب : اوّل…اُردو کے معنی و مفہوم… : اُردو زبان کی ادنیٰ خصوصیات سے آگاہی ’’ادب‘‘ کا مطالعہ کہلاتی ہے لیکن اُردو زبان اور اس کے لسانی رشتہ کے بارے میں واقفیت لسانیات کا حصہ ہے۔ اُردو زبان کس زبان سے وجود میں آئی اور اس زبان میں کون کون سی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اس زبان کا ادب کس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس باب میں ایسے ہی اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔
باب : دوم … اُردولفظ کی بنیاد : طویل عرصہ تک اُردو ہندوستان کی سرزمین میں منتقل ہونے والے مسلم طبقہ نے لشکر کے طور پر استعمال کیا۔ عربی، ترکی اور ایرانی نسل کے باشندوں نے فوجوں کی حیثیت سے ہندوستان پر لشکر کشی کی تو انہوں نے ہندوستان میں مقامی بادشاہوں کی نگرانی برقرار رکھنے کے لئے مسلمان فوج کا جتھہ ہندوستان کے بادشاہوں کے درباوں سے وابستہ کردیا۔ اس فوجی جتھہ کا نام ’’اُردو‘‘ کہا جاتا رہا۔ ترکی زبان میں لفظ اُردو کے معنی لشکر کے ہیں۔
باب : سوم… اَدب اور اَدبی خصوصیات … : عام طور پر یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص تہذیب، شائستگی اور اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو حد درجہ معصوم ثابت کرے تو ایسے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے ادب کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ادب درحقیقت اظہار کا ذریعہ ہے۔ یعنی ظاہر کرنے کے مختلف طریقے جب کسی زبان میں پیدا ہوجاتے ہیں تو اس زبان میں ادب پروان چڑھتا ہے۔ جس طرح چہرے اور جسم کو سجانے اور سنوارنے کی وجہ سے اس کے نکھار میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح کسی بھی زبان کے الفاظ کو سجانے اور سنوارنے کے لئے تشبیہ، استعارے، محاورے اور تلمیحات کا سہارا لیا جائے تو زبان کی سجاوٹ کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی زبان کی سجاوٹ ادب کا ذریعہ بنتی ہے۔
باب : چہارم… زبان اور ادب میں فرق … : عام انسان ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے طبقہ کو بھی زبان اور ادب کے فرق کے بارے میں واقفیت اکثر نہیں ہوتی۔ اس باب کے ذریعہ طلباء میں زبان اور ادب کے درمیان فرق کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس فرق کی بنیاد پر ہی طالب علموں میں عوامی لب لہجہ اور ادبی لب و لہجہ میں شامل خصوصیات سے آگہی ممکن ہے۔
باب : پنجم… اُردو، ایک ہند۔ آریائی زبان … : دنیا کی پانچ قدیم تہذیبیں جیسے وادی ٔ سندھ کی تہذیب (ہندوستان)، وادی ٔ نیل کی تہذیب (مصر)، یونان اور روم کے علاوہ چین کی تہذیب، ساری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ ان قدیم ممالک میں قدیم زمانے سے ہی زبانوں کا رواج رہا ہے۔ ہندوستان جیسے قدیم ملک کی تہذیب بھی حد درجہ پرانی ہے۔ تاریخی پس منظر میں اس ملک کی ابتدائی قوم دراوڑیوں کی تھی ان کے ذریعہ سندھ کا سارا علاقہ آباد رہا۔ اس علاقہ کے لوگ اپنی زبان دراویڈی کی حفاظت کررہے تھے۔
دو ہزارسال قبل مسیح میں آریاؤں کا ایک قافلہ ہندوستان کی طرف اور دوسرا قافلہ ایران کی طرف روانہ ہوا۔ ہندوستان میں آنے والی آریائی قوم ہند۔ آریائی کہلائی، جبکہ ایران کی طرف جانے والی آریائی قوم ہند۔ ایرانی کہلائی۔ لسانی پس منظر میں تاریخی شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہ ایک ہند۔ آریائی زبان ہے۔ اس زبان میں دراوڑی زبانوں کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لئے اُردو کا تعارف ایک ہند ۔ آریائی زبان کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ جس کی حقیقی بہن ہندی قرار پائی ہے۔ وہ بھی ہند۔ آریائی السنہ سے تعلق رکھتی ہے۔
حصہ (ب) میں جملہ (6) مضامین ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں اس بابمیں ’’ہندوستان میں آریاؤں کی آمد‘‘ اور آریاؤں کا دراوڑیوں سے ٹکراؤ اور جنوبی ہندمیں دراوڑیوں کا تسلط کے عنوان سے ان مضامین میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جو ریسرچ اسکالرز کے لئے معلوماتی خزانہ ہے۔
حصہ ب … (ہند۔ آریائی زبانوں کا تعارف)
باب : ۷ ہندوستان میں آریاؤں کی آمد
باب : ۸ آریاؤں اور دراوڑیوں میں ٹکراؤ
باب : ۹ وادی ٔ سندھ کی قدیم ابتدائی زبانیں
باب : ۱۰ آریاؤں کی نقل مکانی
باب : ۱۱ شمالی ہند میں آریاؤں کا تصرف
باب : ۱۲ جنوبی ہند میں دراوڑیوں کا تسلط
حصہ (ج) میں ’’وسطی اور جدید ہند۔ آریائی زبانیں ‘‘ کے عنوان سے جملہ (6) ابواب پر تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ ان ابواب میں خاص طور پر ’’مغربی ہندی اور اس کی مختلف بولیاں‘‘ اردو کے تعلق سے مختلف نظریات اور اُردو کا پھیلاؤ صوفیہ کرام کے ذریعہ تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
ج…(وسطی اور جدید ہند۔ آریائی زبانیں)
باب : ۱۳ سندھ، پنجاب اور دوآبہ میں آریائی زبانیں
باب : ۱۴ ویدوں اور ذاتوں کا دور
باب : ۱۵ پراکرتوں اور اپ بھرنش کا دور
باب : ۱۶ مغربی ہندی اور اس کی مختلف بولیاں
باب : ۱۷ اُردو کے تعلق کے بارے میں مختلف نظریات
باب : ۱۸ اُردو صوفیہ کرام کے ذریعہ پھیلی
چوتھا حصہ (د) ’’اردو زبان کا آغاز اور پھیلاؤ‘‘ کے عنوان سے (6) ابواب پر مشتمل معلومات فراہم کی گئی ہیں جو اس طرح ہیں۔ اُردو کے فروغ میں تاجروں کا حصہ، سپاہیوں کا حصہ، بادشاہوں کا حصہ اور شمالی اور جنوبی ہند میں اُردو کا اثر اور پھیلاؤ کے عنوان سے تفصیلی مضامین لکھے گئے ہیں۔
د … (اُردو زبان کا آغاز اور پھیلاؤ)
باب : ۱۹ اُردو کے فروغ میں تاجروں کا حصہ
باب : ۲۰ اُردو کی ترقی میں سپاہیوں کا حصہ
باب : ۲۱ شاہانہ سرپرستی میں اُردو کا فروغ
باب : ۲۲ اُردو کا مؤلد اصلی
باب : ۲۳ اُردو کا اثر شمالی ہند پر
باب : ۲۴ اُردو کا اثر جنوبی ہند پر
کوئی بھی زبان جس کسی علاقہ میں پھلتی پھولتی ہے تو ابتدائی طور پر وہ بولی کی حیثیت سے فروغ پاتی ہے۔ جب اس میں تحریری نمونے پیدا ہوتے ہیں تو اس زبان کا ادب پروان چڑھتا ہے۔ دکن کے علاقہ میں مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے ایک نئی زبان پیدا ہوئی، جو ہندوستان کے مقامی باشندوں اور بیرونی علاقوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کے آپسی اتحاد کا نتیجہ تھی۔ دکن کے علاقہ میں اس زبان کو دکنی کے نام سے یاد کیا گیا۔
فاضل مصنف نے اپنی قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر اردو داں طبقے اور ریسرچ اسکالر میں طلباء اور اساتذہ کے مطالعہ کے لئے نہایت ہی معلوماتی کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تیاری کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد حاصل کی ہے۔ خاص طور پر ریسرچ اسکالرس کے لئے یہ کتاب اُردو ادب کا اثاثہ ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لئے اس فون نمبر 9441697072پر ربط پیدا کریں۔