اپوزیشن مکت اسمبلی یا حلیف جماعت کو اپوزیشن موقف کا مسئلہ

   

کم تعداد کے باوجود اپوزیشن کے موثر ہونے کی کچھ گوشوں کو امید

حیدرآباد 11 جون (پی ٹی آئی ) کانگریس کے دو تہائی ارکان اسمبلی کے ٹی آر ایس میں شامل ہوجانے کے بعد کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تلنگانہ اسمبلی اپوزیشن مکت ہوگئی ہے ۔ کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد میں کمی کے باوجود یہ اتنے ہی اثر انداز ہوسکتے ہیں جتنے اصل تعداد کی وجہ سے ہوسکتے تھے ۔ ٹی آر ایس نے تلنگانہ کی 119 رکنی اسمبلی میں ڈسمبر 2018 میں منعقد ہوئے انتخابات میں 88 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس میں کانگریس کو 19 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ مجلس کو سات نشستیں اور بی جے پی کو ایک نشست ہی مل سکی تھی ۔ ایک آزاد رکن اسمبلی اور ایک نے آل انڈیا فارورڈ بلاک کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اور ایک تلگودیشم رکن اسمبلی نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ اس کے بعد کانگریس سے انحراف کا سلسلہ مارچ سے شروع ہوا تھا جو 12 ارکان اسمبلی کے انحراف تک پہونچ گیا ۔ اسپیکر نے ایک درجن کانگریس ارکان اسمبلی کے ٹی آر ایس مقننہ پارٹی میں انضمام کو بھی منظوری دیدی ہے ۔ اس سے اسمبلی میں ٹی آر ایس ارکان کی تعداد 103 تک پہونچ گئی ہے جس کی جملہ عددی طاقت فی الحال 118 ہے ۔ پردیش کانگریس کے صدر اتم کمار ریڈی نے لوک سبھا نشست کیلئے انتخاب کے بعد اسمبلی کی رکنیت سے استعفی پیش کردیا ہے ۔ چونکہ کانگریس کے ارکان کی تعداد محض چھ رہ گئی ہے ایسے میں مجلس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ اپوزیشن کا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کریگی کیونکہ وہ سات ارکان کے ساتھ ایوان میں دوسری بڑی جماعت رہ گئی ہے ۔ تاہم کیا مجلس کے اپوزیشن جماعت کا موقف حاصل کرنے کا کوئی معنی ہوسکتا ہے ؟ ۔ ٹی آر ایس اور مجلس نے ایک دوسرے کو اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں حلیف قرار دیا ہے اور ایک دوسرے سے اشتراک میں مقابلے کئے ہیں۔ ٹی آر ایس کا دعوی ہے کہ وہ تلنگانہ اسمبلی کو اپوزیشن مکت بنانے کام نہیں کر رہی ہے بلکہ کانگریس ارکان اسمبلی نے پارٹی میں قیادت کے فقدان ‘ ویژن کے فقدان کی وجہ سے پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ ٹی آر ایس کا دعوی ہے کہ پارٹی جمہوری اصولوں کے مغائر ہوکئی کام نہیں کر رہی ہے ۔