اچھے دن تو گئے۔ حقیقی ہندوستان کا احیاء عمل میں لائیں۔راج دیپ سردیسائی کا وزیراعظم کے نام کھلا خط

,

   

محترم وزیراعظم
کیو نکہ یہ موسم کھلے مکتوبات ہے‘ تو میں نے سونچا کہ ایک خط میں بھی لکھوں۔اس کی شروعات میں مجھے آپ کی 2019کے الیکشن میں غیر معمولی جیت پر مبارکباد پیش کرنے دیجئے۔

واقعہ میں یہ آپ کی حیرت انگیز جیت ہے‘جس میں کا سہرا قابل فخر سیاسی کوشش اور امیت شاہ کی غیر معمولی تنظیمی پہل کے سر جاتا ہے۔

ہم نے پہلے ہی آپ کی جیت کا اثر بدحواس اپوزیشن پر دیکھا ہے۔ہر روز ہم سن رہے ہیں ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں اپوزیشن لیڈران بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔

میں نہیں سمجھتا کے جس طرح اپوزیشن الزام لگارہا ہے کہ یہ سب ایجنسیوں کے استعمال کے ذریعہ آہستہ آہستہ کیاجانے والا کام ہے۔

ہم ’ابھرتے سورج‘ کا ملک جہاں پر موقع پرست سیاسی قائدین متواتراقتدار کی طرف راغب ہورہے ہیں۔

یہ اندرا کے دورمیں بھی ہوا جب کانگریس بااثر پارٹی تھی اور اب بھی ہورہا ہے جب بی جے پی ایک نئی سیاسی طاقت بنی ہے۔

ہم نے پہلے ہی دیکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی اہمیت کو بالادستی کی سیاست نے کس طرح تباہ کیاہے‘ جو پارلیمنٹ میں شاندار اکثریت اور راجیہ سبھا میں ’بکھیری‘ہوئی اقلیت پارلیمنٹ کو نظر انداز کئے بغیر آپ ہر بل پاس کرسکتے ہیں۔

مگر میں یہاں پر اس گہری سیاسی بداخلاقی کے معاملہ یا پھر مسلئے ’آیارام گایارام‘ کے مسلئے پر بات نہیں کروں گا‘جو پارٹی نظام کی مکمل طور پر تباہی کا انکشاف کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے اردگر د اکثریت کے نام پر پیدا کئے جانے والی بدحواسی پر اس کالم میں وقت ضائع کروں گا۔

یقینا آپ کو ملک میں ہونے والے ہجومی تشدد کے واقعات جس کا تعلق مذہبی شدت پسندی سے ہے کی جانکاری ہوگی۔

جب بی جے پی کے ایک چیف منسٹر کانگریس کے ایک مقامی رکن اسمبلی کو جئے شری رام کانعرہ لگانے پر مجبور کررہے تھے‘ پھر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیو ں ایک معمولی مذہبی بھڑکاؤ خوف زدہ اقلیتوں کو رونے کے اکسانے کاکام کررہا ہے۔

مگر دوبارہ نہیں چاہوں گاکے پولرائزیشن کے مسلئے پر توجہہ دوں کیونکہ جواب کیاہوگا اس کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ لاء اینڈ آرڈر ریاستی کا حصہ ہے اور مرکزی حکومت مذکورہ تشدد کو روکنے کے حسب ضرورت اڈوائزری کے آگے کچھ نہیں کرسکتی ہے۔

اس کے علاوہ میں نہیں چاہوں گا یہ ایک’اربن نکسل‘خان مارکٹ تکڑے تکڑے گینگ‘مخالف ملک‘ کا لیبل پر لگے‘ جو بدقسمت ساتھی شہریوں کے اوپر بات کرنے سے بھی خراب ہے۔

کسی بھی معاملے میں قیاس پر مشتمل سونچ اس کے متعلق (تقسیم ہند‘1984‘کشمیری پنڈت وغیرہ)اس سے ذہنی طور پر میں پریشان ہوجاتاہوں۔

نہیں جناب میں سیاست میں ایک ہی پارٹی‘ دولوگوں کا شو‘ نہ پر اپنا تبصرہ نہیں نافذ کروں گا‘ او رنہ ہی فرقہ واران تعلقات کی تباہی پر خوشی کا کوئی ذکر کروں گا۔

اس کے بجائے میں چاہوں گا آپ کی توجہہ صحت اور ہماری معیشت کے معاملات کی طرف راغب کرتے ہوئے ”حقیقی“ مسائل سامنے لاؤں۔

شائد یہ میڈیا کے فکری دیوالیہ پن کی یہ عکاسی کرتا ہے اور ٹی وی میڈیا خاص طور پر جہاں پر ہم کوتاہ ذہنی سے اپنی بحث کو توسیع دیتے ہیں کیونکہ بجٹ ہوئے محض ایک ماہ کا وقفہ گذارا ہے‘ بزنس کمیونٹی کاموڈ نہایت خراب ہے۔

میں اس سے معاشی ماہر ہونے کا دعوی تو نہیں کرتا مگر میں معاشی ماہرین اس پر برہم آوازیں ضرور سن رہاہوں۔

اگرچہ کے چند پروگرام میں جی ڈی پی کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ چھ سے اٹھ فیصد بڑھ جاتی ہے‘ وہ کم سے کم پکے مکان‘ ایل پی جی سلنڈر اور بیت الخلاء سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ مگر کچھ جو ووٹ بینک کی بھلائی پر کام کرتے ہیں

پہلے یا بعد میں ان اعداد وشمار کا ضرور ذکر کرتے ہیں۔ اس تحریرک کے بعد مذکورہ کھلا خط پچاس اعلی صنعت کار لکھیں گے جنھیں معیشت پر حکومت سے تعمیر بات چیت کے لئے بات کرنا ہوگا۔

افسوس کی بات ہے کہ ایک یا دو کو چھوڑ کر تمام انڈین انڈسٹری کے نام نہاد لوگ جو ہمیشہ بجٹ کو دس میں سے دس نمبرات دیتے ہیں میں حکومت کو ائینہ دیکھانے کی ہمت نہیں ہے۔