این آر سی کا اصل نشانہ کون ؟

   

خدا کا فضل ہے اپنی جگہ سلامت ہوں
ہزار بار زمانے نے مجھ کو لوٹا بھی !!
این آر سی کا اصل نشانہ کون ؟
مرکز کی نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ سلگتے ہوئے اور عوامی توجہ کے حامل مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان سے توجہ ہٹانے کیلئے نفسیاتی جدوجہد میں زیادہ یقین کرنے لگی ہے اور اسی پر عمل آوری کی جا رہی ہے ۔ آسام میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں این آر سی کے نفاذ اور قطعی فہرست کی اشاعت کے بعد اب سارے ملک میں این آر سی لانے کی بات کی جا رہی ہے ۔آسام کے بعد مغربی بنگال کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ ہر مسئلہ میں مغربی بنگال میں اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سماج میں نفرت اور تفریق پیدا کی گئی ۔ سماج کے ہر شعبہ کو زہر آلود کردیا گیا ۔ عوامی ذہنوں کو پراگندہ کردیا گیا تھا ۔ اب مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ایسا لگتا ہے کہ صرف این آر سی کا خواب دیکھنے میں اتنے محو ہیں کہ انہیں دوسرے امور پر کوئی توجہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کام صرف وزارت داخلہ تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ ساری مرکزی حکومت اسی کام پر توجہ دینے میں جٹ گئی ہے ۔ہر وزیر جس کا کوئی الگ ہی قلمدان ہو وہ بھی این آر سی پر ہی بات کرنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ اس سے پتہچ لتا ہے کہ حکومت کے ہر وزیر کے سامنے عوامی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اور وہ صرف اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں ہی جٹے رہے گے ۔ ملک کی معیشت انتہائی ابتر صورتحال کا شکار ہوگئی ہے ۔ حکومت کی حلیف جماعتیں بھی اس کا اعتراف کرنے لگی ہیں۔ نیتی آیوگ جیسے ادارہ نے بھی جی ڈی پی کے تعلق سے انتہائی مایوس کن ریمارکس کئے ہیں۔ شرح ترقی کے تخمینہ کو گھٹادیا گیا ہے ۔ ملازمتیں اور روزگار مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعتیں بند ہونے کے قریب پہونچ رہی ہیں۔ کچھ شعبہ جات پوری طرح سے ٹھپ ہوگئے ہیں۔ بینکوں پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوگیا ہے ۔ کھاتوں میں جمع رقم بھی کھاتہ دارںو کو واپس ملنا مشکل ہوگیا ہے ۔ اس صورتحال میں اگر عوام حکومت سے سوال کرنے لگیں تو حکومت اس پر کوئی جواب نہیں دے پائے گی ۔ شائد اس کا اندازہ حکومت کو ہوچکا ہے اسی لئے این آر سی کا دوسرے مسائل کوہوا دی جا رہی ہے ۔
اب وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ2024 تک سارے ملک میں این آر سی نافذ کردی جائے گی اور اس وقت تک ایک ایک در انداز کو ملک سے نکال باہر کیا جائیگا ۔ ایک طرف این آر سی کے ذریعہ در اندازوں کو نکال باہر کرنے کی بات ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ دوسرے ممالک میں جن ہندووں ‘ جین برادری والوں ‘ عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ کو پریشان کیا جارہا ہے انہیں ہندوستان کی شہریت دی جائے گی یا انہیں پناہ دی جائے گی ۔ اس طرح یہ واضح ہوگیا ہے کہ این آر سی کا مقصد ملک سے در اندازوں کو نکال باہر کرنا یا غیر قانونی تارکین وطن جو یہاں مقیم ہیں انہیں واپس بھیجنا نہیں بلکہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا رہ گیا ہے ۔ یہ حکومت کا ایجنڈہ بن گیا ہے کہ کسی طرح ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جائے ۔ انہیں ڈر و خوف کے ماحول کا شکار کرتے ہوئے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں مسلمان بھی اتنے ہی درجہ کے شہری ہیں جتنے دوسرے ہیں۔ یہ ملک مسلمانوں کا بھی اتنا ہی ہے جتنا دوسروں کا ہے ۔ این آر سی کے نام پر یا پھر دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے حکومت کے جو منصوبے ہیں وہ در اصل ایک طرف اس کے اصلی ایجنڈہ کو ظاہر کرتے ہیں تو دوسرے طرف یہ بھی اشارہ دیتے ہیں کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو فرقہ پرستی کی آڑ میں چھپانا چاہتی ہے ۔
حکومت ملک کی سلامتی اور سکیوریٹی کیلئے ضرورت کے مطابق کوئی کام کرتی ہے تو یہ اس کا ذمہ اور فریضہ ہے تاہم ایسے کاموں کے نام پر کسی مخصوص طبقہ یا فرقہ کو نشانہ بنانے کی کوششوں کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ کسی ایک طبقہ میں ڈر و خوف کا ماحول پیدا کرنا یا پھر ان کا عرصہ حیات تنگ کرنا یہ دستور ہند کے مغائر ہے ۔ دستور ہند نے ہر ہندوستانی کو مساوی حقوق دئے ہیں۔ ہر ایک مساوی درجہ کا شہری ہے اور دستور پر عمل آوری کو یقینی بنانا حکومت کا ذمہ اور اس کا فریضہ بھی ہے ۔ حکومت کو اپنے فریضہ کی تکمیل کرنی چاہئے نہ کہ نفاق پیدا کرنے والی حکمت عملی پر عمل کرنا چاہئے ۔ این آر سی کو ہتھیار بنا کر سلگتے ہوئے مسائل اور ملک کی تباہ ہوتی معیشت سے توجہ ہٹانے کی حکمت عملی پر کام کرنے کی بجائے حکومت کو اصل مسائل پر توجہ دیتے ہوئے ان کی یکسوئی کیلئے کوئی منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔