ایک اپوزیشن مکت انڈیا بڑے بحران کا ثبوت ہے‘ راج دیپ سردیسائی

,

   

جمہوری کا توازن خطرے میں ہے‘ ضرورت سے زیادہ زور پر کہاں سے چیالنج ملے گا؟
نعروں کے درمیان رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اپوزیشن کے ایک سینئر لیڈر ”ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دس سال کی مودی حکومت کا مینڈیٹ ہے“۔

مذکورہ رکن پارلیمنٹ کی مایوسی کوتعجب کی بات نہیں ہے‘ اپوزیشن بنچ واضح طور پر سنسان نظر آرہی تھیں او رکئی معروف چہرے غائب بھی تھے۔

اگر لوک سبھا ہماری ریپبلک کو آئینہ پیش کرتا ہے تو پھر ہم ایک نئی دور میں داخل ہوجائیں گے‘جہاں پر تنوع آسانی کے ساتھ زعفرانیت کو راستہ دے گی۔

اس سے قبل شائد ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ میں حز ب اختلاف نے کبھی اتنی مایوسی نہیں دیکھی ہوگی۔

اس وقت بھی نہیں جب1984میں راجیو گاندھی نے نریندر مودی سے بڑی مینڈیٹ حاصل کیاتھا۔ کم سے کم دونوں جگہ پارلیمنٹ کے باہر او راندر جہاں پر اپوزیشن لیڈران جیسے اٹل بہاری واجپائی‘ ایل کے اڈوانی‘ جارج فرنانڈیز اور چندرشیکھر آپنے آواز اٹھانے کے لئے قطار کھڑی تھی‘

علاقائی لیڈران جیسے این ٹی راماراؤ‘ اور رام کرشنا ہیگڈے جنھوں نے کانگریس ریاستی الیکشن میں سخت ناک چنے چبانے پر مجبور کردیاتھا کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔

جواہرلال نہرو او راندرا گاندھی کے دور میں بھی وہاں پر اپوزیشن لیڈران کی جھرمٹ تھی جن کا شمار جذباتی انداز میں بات کرنے والوں میں کیاجاتا ہے۔

مگر آج کے دور میں اپوزیشن کاموقف اسکے برعکس ہے۔ کانگریس میں افرتفری ایک غیریقینی صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔

کانگریس صدر راہول گاندھی کا پارٹی صدرات چھوڑنے کے فیصلے نے ایسا خلاء پیدا کردیاہے جس کا پرا ہونا تقریبا ناممکنات میں سے ہے۔

ایس پی او ربی ایس پی کے درمیان جو اتحاد قائم ہوا تھا نتائج کے بعد اس کو فوری ختم کرنے کا اعلان کردیاگیاجس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

علاقائی پارٹیاں جیسے وائی ایس آر کانگریس اورکے چندرشیکھر راؤ کی تلنگانہ راشٹرایہ سمیتی اور نوین پٹنائک کی بیجو جنتادل ایسا لگ رہا ہے کہ مرکز سے معاملہ داری میں دور ہیں تاکہ وہ اپنے ریاستی مفادات کو زیر غور رکھ سکیں۔