بابری مسجد کیس میں ججس کا لہجہ جارحانہ، مسلم فریقین کے وکیل برہم

,

   

رام کی جائے پیدائش سے متعلق حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار افسوسناک، راجیو دھون ایڈوکیٹ کا ردعمل
نئی دہلی ۔ 19 ۔ ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) بابری مسجد رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کیس میں مسلم فریقین کی پیروی کرنے والے ایک سینئر وکیل نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججس کا لہجہ جارحانہ دکھائی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعص نوعیت کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ یہ لب و لہجہ ٹھیک نہیں ہے ۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیر قیادت پانچ رکنی ججس کی دستوری بنچ پر کئی دہوں پرانے سیاسی طور پر حساس کیس کی سماعت اب 27 دن میں داخل ہوگئی ہے لیکن آج اس کیس کی سماعت دوپہر کے کھانے کے بعد نہیں ہوسکی۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا کی طبیعت بگڑ گئی ۔ اس کی وجہ سے وقفہ کے بعد کی کارروائی نہیں چلائی جاسکی۔ بنچ نے قبل ازیں سنی وقف بورڈ اور دیگر کی پیروی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون سے بھی سوالات کئے ۔ اس کیس کے اصل فریق ایم صدیق سے بھی سوالات کئے گئے کہ انہوں نے گواہوں سے جراح کیا ہے جنہوں نے 1935 ء میں متنازعہ مقام کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے سال 2000 ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے بیان بھی دیا تھا ۔ یہ بنچ جسٹس ایس اے بوبڑے ، ڈی وائی چندر چوڑ ، اشوک بھوشن اور ایس اے نذیر پر مشتمل ہے۔ بنچ نے راجیو دھون سے کہا کہ بابری مسجد کیس کے گواہ رام سورت تیواری کے بیان کے بعض دیگر حصوں کا بھی مطالعہ کریں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ متنازعہ مقام پر لگائی گئی جال پر ہندوؤں کی جانب سے پوجا پاٹ کی گئی ہے۔

اس گواہ نے کہا تھا کہ وہ اس مقام کا 1935 ء میں دورہ کیا تھا۔ جسٹس بھوشن نے راجیو دھون سے پوچھا کہ آخر ہم کو اس بیان پر کچھ نہ کچھ یقین کرنا چاہئے ۔ اس پر راجیو دھون نے کہا کہ جج کے لہجہ میں جارحیت دکھائی دیتی ہے ۔ جب جج ہی یہ کہہ کہ میں شواہد کو نیا رخ دے رہا ہوں تو ایسے میں گواہ کے بیان کا مطالعہ کروں گا۔ سینئر وکلاء سی ایس ویدناتھن اور رنجیت کمار نے دھون کے ریمارک پر اعتراض کیا جس پر انہوں نے فوری بنچ سے معذرت خواہی کی ۔ انہوں نے کہا کہ مائی لارڈ میں معافی چاہتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے مایوسی ہوتی ہے۔ اس لئے میں کیا کرسکتا ہوں۔ جب سماعت اتنی طویل جاری رہے تو تھکان کا احساس ہونا ضروری ہے۔ دھون نے چہارشنبہ کے سپریم کورٹ کے اس تاثر پر بھی اعتراض کیا تھا کہ بھگوان رام کے جائے پیدائش کو متضاد مقام پر بنائے جانے کا ہندو یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ 1858 ء میں انگریزوں کی جانب سے لگائی گئی جالی پر ہی پوجا پاٹ کرتے آرہے ہیں۔