باہمی اخوت کے تعلق سے آر ایس ایس سربراہ کا بیان قابل قدر۔ ارشد مدنی

,

   

جمعیت علماء اترپردیش کے انتخابی اجلاس میں اشھد رشیدی پانچویں بار صدر منتخب
لکھنو۔جمعیتہ علماء ایک جمہوری تنظیم ہے ‘ بزروگوں نے اس کے دستور کو مرتب کرنے میں جمہوریت کا خاص خیال رکھا ہے۔ جمعیتہ علماء کی تمام تر کارکردگی خلوص او رللہیت پر مبنی ہے۔ اس وقت ملک کے حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں‘ مسلم نوجوانوں کو جیل میں بے گناہ ٹھونسا جارہا ہے ۔

ان بے گناہوں کے وکلا ء کو مار جارہا ہے۔ ان کے رشتہ داروں پر دباؤ بناکر مقدمہ سے الگ کیاجارہا ہے ۔ اسی طرے آسام میں قومیت کے مسئلہ پر چالیس لاکھ ہندوستانیو ں کو ملک سے باہر کیاجارہا تھا۔

جمعیتہ نے قومیت کے اس مسلئے کو سپریم کورٹ میں پیش کیا اوران ثبوتوں کو منظوری دینے کی درخواست کی جسے حکومت نے ایک حکمت عملی کے تحت منسوخ کردیاتھا۔

سپریم کورٹ نے جمعیت کی درخواست کو منظورکرلیا جس کی وجہہ سے فورا33لاکھ 80ہزار ہندوستانیوں کی قومیت کا مسئلہ حل ہوگیا جس میں بلاتفریق مذہب وملت تمام مذاہب کے افراد شامل ہیں۔

ان خیالات کا اظہار جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کیا۔ وہ جمعرات کو لکھنو کے سنی انٹر کالج کے سیدنا صدیق اکبر ہال میں یوپی جمعیتہ علماء کے انتخابی اجلاس میں بطور مشاہداور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔

اجلاس میں موجودہ ریاستی صدر مولانا اشھد رشیدی کو پانچویں مرتبہ جمعیتہ علماء یوپی کا صدر منتخب کیاگیا۔ اس موقع پر مولانا ارشد مدنی نے کہاکہ ہندوستان کے سکیولر ائین کے تحفظ کی ذمہ داری ہر حال میں نبھانی ہے۔ جمعیت علماء جمہوریت کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہے۔

ہم ہندوستان کے سکیولر ائین اور جمہوری نظام کو قطعی طور ر نقصان پہنچانے یا اس میں ترمیم کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔

مولانا نے کہاکہ ہندوستان کی دیگر سیاسی جماعتوں تنظیموں اور ہندوستانیوں کو اس معاملہ میں جمعیتہ کے لوگ اپنے ساتھ شریک کریں اور ان کے سامنے حسن واخلاق وحسن معاشرت جو ہماری مذہبی شعار ہے پیش کریں گے۔

مولانا نے کہاکہ تقسیم ہند کو لے کر اب تک کئی ہزار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے لاکھوں جانیں تلف ہوئیں کروڑوں اربوں کی ملکیت برباد ہوئی۔ یہ سب کچھ کانگریس کے دور حکومت میں ہی ہوا ۔

آج جو زہریلی ناگ ملک کو زہر آلودبنانے کی کوشش کررہے ہیں ان سپوتوں کو بھی کانگریس نے اپنی آستین میں پالا لیکن اپنے ساٹھ سالہ دور حکومت میں کانگریس نے ملک کے سکیولر ائن کو باقی رکھا۔

جس کے نتیجے میں ہندوستان میں مذہبی دینی تہذیبی تشخص بررقرار ہے‘ جبک موجودہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور اقتدارمیں ملک کے سکیولر ائین کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مولانا مدنی نے سنگھ سربراہ کے حال ہی میں دئے گئے بیان ہندوستان میں مسلمانوں کے بغیر ہندو نہیں ر ہ سکتے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ آر ایس ایس کی فکری تبدیلی کا نتیجہ ہے ۔

آر ایس ایس ملک میں سب سے بڑی تنظیم ہے اس کے پاس لاکھو ں طلبہ کی تعلیم کا بھی نظا م ہے۔

حکومت چلانے وایل مشنری کے افراد بھی ہیں۔ اگر اس کی فکر میں یہ بات آگئی ہے کہ ہندو اور مسلمان کی باہمی اخوت سے ہندوستان ترقی کرے گاتو آر ایس ایس کا استقبال کرتاہوں۔ ان لوگوں کو مبارکباددیتاہوں جنکے مزاج میں قومی یکجہتی داخل ہوگئی ہے۔

مولانا نے کہاکہ موجودہ دور میں عصری تعلیم دولت مندوں تک ہی محدود رہ گئی ہے کیونکہ اس کے لئے درکار سرمایہ عام ہندوستانیوں کے پاس نہیں ہے۔

سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ میں جوش او رولولہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ مولانا مدنی نے کہاکہ مدرسوں کا یہ کردار ہے کہ وہ ان بچوں کو تعلیم دیتے ہیں جن کے پاس زندگی جینے کا کوئی نظام نہیں ہوتا ہے لیکن مدرسہ کے لوگ اپنے اس اہم کام کو عوام تک نہیں پہنچاپاتے۔

لہذا مدرسوں کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بردارن وطن کو اپنے اداروں تک ضرور لائیں۔ انہیں دیکھائیں کہ مدرسوں میں کیا پڑھایاجاتا ہے او رکیاسکھایا جاتا ہے جس سے ان کے ذہن مدرسوں کے متعلق صاف ہوسکے او ربھائی چارہ کا بھی فروغ ہوسکے۔

اس سے قبل مولانا اشھد رشیدی کی صدرات میں ہوئے اجلاس کا آغاز قرات کلام پاک سے ہوا ‘ محمدرتحان نے نعت کا نذرانہ او ر جمعیت کا ترانہ پیش کیا۔