بلندیوں پہ پہنچنا کوئی کمال نہیں

   

سونیا گاندھی … قربانیاں… تجربہ
مودی حکومت سے ٹکراؤ کی تیاری
رشیدالدین

دنیا کا دستور ہے کہ طاقت اور طاقتور کے ساتھ ہجوم اور تائید کرنے والے جڑ جاتے ہیں ۔ اگر کوئی کمزور ہوجائے تو مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگتی ہیں اور بعض آوازیں تو جانی پہچانی ہوتی ہیں۔ کل تک جو وفاداری میں پیش پیش تھے ، وہ بھی باغیانہ تیور دکھانے لگتے ہیں۔ ہر دور میں کرسی کو سلام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ کرسی پر کون ہے ۔ انہیں کرسی کو سلام کرتے ہوئے مفادات کے تحفظ کی فکر ہوتی ہے۔ ایک سیاسی پارٹی میں کرسی صدارت کیلئے جاری کشمکش کے دوران ایک دعویدار نے مخالف کی دعویداری کمزور کرنے اپنے ایک ساتھی کو مشورہ دیا کہ وہ میڈیا کے ذریعہ فلاں کی مخالفت کریں۔ اس قائد نے کسی لاگ لپیٹ یا مصلحت کے بغیر کہہ دیا کہ کسی کی مخالفت ممکن نہیں کیونکہ برسوں سے میں کرسی کو سلام کرتا آرہا ہوں۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کرسی پر کون ہے۔ جو بھی کرسی پر ہو ، اس کو سلام کرنا میری سیاست ہے۔ کرسی کو سلام کرنے والے ہر شعبہ حیات میں مل جائیں گے ۔ قابلیت اور صلاحیت سے عاری یا پھر اپنی قابلیت کے بارے میں اوور کانفیڈینس افراد اس زمرہ میں دکھائی دیں گے ۔ دونوں کے پیش نظر مفادات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں اور مذہبی ، سماجی اور تعلیمی اداروں میں جب کبھی سربراہ کمزور ہوجائے یا اس پر برا وقت آجائے تو سایہ ساتھ چھوڑنے کا محاورہ صادق آتا ہے۔ 135 سالہ تاریخ کی حامل کانگریس نے طویل سفر میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن ہر بار نہرو۔گاندھی خاندان نے پارٹی کو سہارا دے کر زوال سے بچالیا۔ پارٹی اقتدار میں ہو تو تنظیم کے استحکام کی فکر کسی کو نہیں ہوتی لیکن اقتدار سے محرومی اور اپوزیشن میں آتے ہی قیادت کی کمیوں اور کوتاہیوں کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ اقتدار کے دوران تو یہی قیادت قابل ، کامیاب ، اہل ، حرکیاتی نہ جانے کیا کیا القاب سے نوازا جاتا ہے لیکن اپوزیشن میں آتے ہی وہی قیادت کمزور اور صلاحیت سے محروم قرار دی جاتی ہے۔ دوبارہ اقتدار کے لئے تنظیم سازی کے جو مشورے اپوزیشن میں رہ کر دیئے جارہے ہیں،

گر اقتدار میں رہ کر توجہ دی جاتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ کانگریس پارٹی ان دنوں قیادت کے مسئلہ پر سینئرس اور جونیئرس میں رسہ کشی کا مرکز بن چکی ہے۔ سینئرس اور جونیئرس میں بڑھتی خلیج پارٹی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ کئی دہوں تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے سینئرس کو سیکنڈ لیول قیادت کی تیاری برداشت نہیں اور وہی ہر معاملہ میں خود کو عقل کل ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ سینئرس کے تجربہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اگر تجربہ کے ساتھ نوجوانوں کا جذبہ شامل ہوجائے تو کامیابی قدم چومے گی۔ ہر دور میں پارٹی صدر ہو یا وزیراعظم وہ اپنی ٹیم تشکیل دیتے رہے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی ٹیم ، اندرا گاندھی دور میں نہیں تھی ۔ اسی طرح راجیو گاندھی نے نوجوانوں کی ٹیم بنائی تھی ، ان میں بیشتر آج عمر کے اعتبار سے سینئرس میں شامل ہوگئے ۔ راہول گاندھی اگر اپنی ٹیم بناتے ہیں تو ظاہر ہے کہ زیادہ تر نوجوان ہی ہوں گے ۔ اگر سینئرس ابھی بھی خود کو فیصلہ ساز سمجھنے لگیں تو نہیں چلے گا۔ سینئرس کو اپنے تجربہ کی روشنی میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہئے ۔ راہول گاندھی کی قیادت سے اختلاف کرنے والے قائدین شائد اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ نہرو۔گاندھی خاندان کے بغیر پارٹی کا تصور ادھورا ہے۔ گاندھی خاندان سے قیادت کی مخالفت کرنے والے سینئر قائدین ایسے ہیں جو کبھی عوام کی جانب سے منتخب نہیں ہوئے اور راجیہ سبھا میں عمر گزاردی۔ پارٹی کے مستقل صدر اور بلاک سطح سے ورکنگ کمیٹی تک انتخابات کا مشورہ دینے والے 23 قائدین کا دعویٰ ہے کہ سونیا گاندھی کو مکتوب میں ان کی نیت صاف تھی۔ پارٹی کی بھلائی میں قائدین کی تجاویز قابل قدر ہیں لیکن مکتوب کی ٹائمنگ اور ان کی نیت پر شبہات کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔ سونیا گاندھی کی علالت کی پرواہ کئے بغیر اس وقت مکتوب روانہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ، جب وہ ہاسپٹل میں شریک تھیں؟ ایسا کیا ہنگامی معاملہ تھا کہ ہاسپٹل میں رہنے کے باوجود مکتوب روانہ کرنا پڑا۔ ہاسپٹل سے گھر واپسی کا انتظار کیا جاسکتا تھا۔ علالت کے دوران اس طرح کے مکتوب کے ذریعہ ذہنی اذیت کا سامان کیا گیا۔ آخر یہ کس کے اشارہ پر تھا اور پس پردہ کیا مقاصد کارفرما تھے ؟ پارٹی کیلئے مختلف خدمات کا دعویٰ حتیٰ کہ بعض ریاستوں میں اقتدار میں واپسی جیسے کارنامے گنائے جارہے ہیں۔ انہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ خدمات کا بھرپور صلہ دیا گیا اور ہمیشہ اقتدار میں شامل رہے۔ اپوزیشن کے باوجود انہیں راجیہ سبھا میں بھیجا گیا۔ ایک قائد تو ایسے ہیں جو اندرا گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ تک کے تمام وزرائے اعظم کی کابینہ میں شامل رہے۔ خدمات کا اس سے بڑھ کر بہتر صلہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔ مکتوب لکھنے والے قائدین نے علالت کے ساتھ پارٹی کے لئے سونیا گاندھی کی قربانیوں کا کچھ تو لحاظ کیا ہوتا۔ راجیو گاندھی کی موت کا غم ابھی تازہ تھا کہ سیتارام کیسری کی قیادت میں پارٹی کو بکھرنے سے بچانے کیلئے سونیا گاندھی نے قیادت کی ذمہ داری قبول کی۔ 2004 ء میں انہوں نے وزیراعظم کے عہدہ کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے منموہن سنگھ کو آگے کردیا۔ ایک موقع پر منموہن سنگھ نے راہول گاندھی کو وزیراعظم بنانے استعفیٰ کا پیشکش کیا تھا ۔ کرسی اور اقتدار اگر عزیز ہوتا تو سونیا گاندھی اپنے سپوت کو وزیراعظم بناسکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ الغرض سونیا گاندھی نے حکمت کے ساتھ پارٹی میں اٹھے بحران پر قابو پالیا اور پارٹی کو بکھرنے سے پھر ایک بار بچالیا ہے ۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سینئر قائدین کی یہ بغاوت پارٹی مفاد سے زیادہ شخصی مفادات کے تحت تھی۔ بعض ایسے قائدین جو اندرونی طور پر ہمیشہ گاندھی خاندان کے مخالف رہے ہیں ، انہوں نے دیگر قائدین کو بغاوت پر اکسایا ۔ انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ پارٹی کو مستحکم کرنے کیلئے مکتوب لکھا جارہا ہے۔ مبصرین کے مطابق غیر گاندھی خاندان کے صدر کی تجویز کا مقصد پارٹی کی صدارت اور اثاثہ جات پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ 4 ریاستوں میں کانگریس کی حکومت پر کنٹرول کیا جاسکتا تھا ۔ جن 23 قائدین نے قیادت میں تبدیلی کی آواز اٹھائی ، ان میں سے ایک بھی صدارت کے عہدہ کے لئے عوام کے نزدیک قابل قبول چہرہ نہیں ہے۔ ایک بھی قائد ایسا نہیں جسے ملک بھر میں عوامی مقبولیت حاصل ہو۔ صرف گاندھی خاندان کی مخالفت کے جذبہ نے انہیں گمراہ کردیا ۔ اپوزیشن کو اس بات کا اعتراف ہے کہ لاکھ خامیوں کے باوجود راہول گاندھی آج بھی حکومت کیلئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اترپردیش سے تعلق کے باوجود کیرالا سے منتخب ہوکر راہول گاندھی نے اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔ مخالف 23 قائدین میں بیشتر ایسے ہیں جو خود اپنی ریاستوں میں منتخب نہیں ہوسکتے۔ گاندھی خاندان کی سیاسی وراثت مضبوط ہے۔ موتی لال نہرو مجاہد آزادی تھے، ان کے بعد پنڈت نہرو نہ صرف مجاہد آزادی بلکہ ملک کے پہلے وزیراعظم رہے۔ جدید ہندوستان کے معمار کی حیثیت سے دنیا پنڈت نہرو کو یاد کرتی ہے ۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کیا اور دونوں نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی ۔ ہندوستان میں کوئی بھی سیاسی خاندان اس طرح کی قربانیوں اور خدمات کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ یقیناً آج کانگریس کے حالات ٹھیک نہیں ہیں لیکن نریندر مودی نے آبِ حیات نہیں پیا ہے۔ بی جے پی کیلئے مودی اور امیت شاہ کے علاوہ کوئی تیسرا قائد مقبولیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ امیت شاہ ہاسپٹل میں زیر علاج ہیں اور نریندر مودی بھی طبعی عمر کے مرحلہ میں ہیں۔ ملک کی سیاسی ہوا کسی بھی وقت بدل سکتی ہے اور عوام کے پاس گاندھی خاندان کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے ۔ اسی دوران سونیا گاندھی نے ملک میں اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ انٹرنس امتحانات کے مسئلہ پر انہوں نے 7 چیف منسٹرس کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی جن میں 3 غیر بی جے پی چیف منسٹرس شامل رہے۔ عوامی مسائل پر نریندر مودی حکومت سے متحدہ مقابلہ کا فیصلہ کیا گیا۔ پہلی میعاد میں مودی حکومت کے لئے کوئی خاص خطرہ نہیں تھا لیکن دوسری میعاد میں کانگریس پارٹی اپوزیشن کو متحد کرسکتی ہے۔ مہاراشٹرا کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نے ریمارک کیا کہ ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ مرکز سے ڈرنا ہے یا لڑنا ہے ۔ آندھراپردیش ، تلنگانہ، دہلی اور کیرالا کے چیف منسٹرس فی الوقت اتحاد کی مہم سے دور ہیں لیکن مرکز سے ناانصافی کی صورت میں وہ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ کانگریس کے ساتھ ممتا بنرجی کا آنا حوصلہ افزاء اور اہمیت کا حامل ہے ۔ سونیا گاندھی نے ناسازیٔ مزاج کے باوجود اپوزیشن کے اتحاد کا بیڑہ اٹھایا۔ بہار کے مجوزہ انتخابات میں کانگریس کا موقف بہتر ہوسکتا ہے کیونکہ پرینکا اور راہول نئے حوصلے کے ساتھ انتخابی مہم میں سرگرم رہیں گے۔ سونیا گاندھی نے پھر ایک بار یہ ثابت کردیا کہ ملک کی قیادت کیلئے گاندھی خاندان کی رہنمائی کانگریس کیلئے ضروری ہے۔ اشوک ساحل نے کیا خوب کہا ہے ؎
بلندیوں پہ پہنچنا کوئی کمال نہیں
بلندیوں پہ ٹھہرنا کمال ہوتا ہے