بنگلورو پونزی اسکام۔ کس طرح مسلم سیاسی اور مذہبی قائدین کے عوام پر بھروسہ کا ریاکٹ نے فائدہ اٹھایا

,

   

بنگلورو۔ کرناٹک میں بے شمار پونزی اسکام نے عوام کے پیسوں کو غبن کیاہے‘ مگر مذکورہ ائی مونٹیری اڈوائزری(ائی ایم اے)گروپ اسکام نے میڈل کلاس سرمایہ کاروں کا ناقابل تلافی نقصان کیاہے‘

اور اس کے ساتھ مسلم سیاسی اور مذہبی قائدین پر عوام کے اعتماد کو بھی شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔

مسلم کمیونٹی کے سیاسی قائدین نے اس بات کو تسلیم کیاہے کہ ان کا اعتبار داؤ پر ہیں کیونکہ ان میں کچھ لوگوں کا تعلق ائی ایم اے کے مالک محمد منصور خان سے عوامی رابطہ عام ہے‘ جس کی وجہہ سے اس کے مجرمانہ ادارہ کو شہرت ملی ہے۔

انہوں نے کہاکہ امبیڈینٹ مارکٹنگ پرائیوٹ لمیٹیڈ کااثر جس کے تجارتی طریقہ ائی ایم اے کی طرح تھا‘ ائی ایم اے کے اسکام کے مقابلے میں منفی اثرات کا اثر کم ہوگا۔

ایک ذرائع نے کہاکہ ”سیاسی قائدین منصور کے عوامی فنکشنوں میں شامل ہوتے ہیں جو مشاعروں پر مشتمل تھے۔

مگر منصور نے اپنی حساب کی کتاب میں علماء کو شامل کرلیا۔

دوسال قبل اس نے ایک کتابچہ منظرعام پرلیاتھا جس میں اس کے ادارے میں کی جانے والی تمام سرمایہ کاری کو ہلال قراردیاگیاتھا“۔

کانگریس کے ایک سینئر مسلم لیڈرنے کہاکہ سیاسی قائدین او رعلماء کے تئیں کمیونٹی میں بھروسہ کا بحران ہے۔انہوں نے کہاکہ ”اچانک علماؤں نے اپنے جمعہ کے خطبات میں قرآنی تعلیمات پر بات کرنے کے لئے منصور اور اس کے اداروں کی ترقی کے لئے استفسار کرنے لگے“۔

ایک ذرائع نے کہاکہ ”ان میں کچھ نے تو اس کے کاروبار پر یقین دہانے کے فتوات تک جاری کئے ہیں‘ جبکہ ان میں سے کچھ تو ادارہ کی معاشی معاملات کے متعلق ناواقف تھے۔

سینکڑوں کی تعداد میں سرمایہ کاروں نے کنونشن سنٹر پولیس میں شکایت درج کرائی ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم قائدین کی اکثریت منصور سے بڑے پیمانے پر یا تو الیکشن فنڈنگ یاپرسرکاری اسکولوں کی تزائن نو کے حوالے سے استفادہ اٹھایاہے۔

ایک ذرائع نے کہاکہ ”حقیقت یہ ہے کہ منصور کے ساتھ ان لوگوں کو دیکھ کر لوگوں میں بھروسہ پیدا ہوا جس کے پاس کچھ سرمایہ تھا“

کرناٹک میں مسلم سیاسی قیادت میں زیادہ تر کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے۔

مگر مسلم قائدین عوامی مفاد میں کبھی متحدہ نہیں ہوئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ”سیاسی قائدین کے درمیان میں حسد‘ ایک دوسرے کی کاٹ میں رہنا اور ان کے درمیان عمر کے فرق کی وجہہ سے مسلم سماج کے لئے متحد ہ آواز نہیں ابھری“۔

اور اسی کانگریس نے حالیہ لوک سبھا الیکشن میں ایک ہی مسلم امیدوار کوٹکٹ دیا‘ جبکہ سابق میں دوسے تین مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیاجاتا تھا‘ جس کی وجہہ سے مسلم قائدین کے حوصلے پست ہوگئے۔

ذرائع نے یہ بھی کہاکہ ”پارٹی کی قیادت میں کمیونٹی کو کیادیکھا وہ دیکھنا ہے۔ مذکورہ لوک سبھا الیکشن جس میں بی جے پی کو بہت سارے مسلمانوں نے ووٹ دیا ہے‘ ایک آنکھیں کھول دینا والی بات ہے“۔

مسلم سماج کے لوگوں کا کہنا سال2001میں سابق منسٹر عزیز سیٹھ کے انتقال کے بعد پارٹی مسلمانوں کا کوئی حقیقی لیڈر نہیں رہا ہے‘ وہ مسلمانوں کے حساس مسائل پر اپنے موقف کے لئے مشہور تھے۔

ایک مسلم کانگریس لیڈر نے کہاکہ ”پیسے کاکھیل چل رہا ہے‘ جو میرے کام کرنے کا انداز نہیں ہے۔

کانگریس نے کے رحمن خان‘ سی کے جعفر شریف (جب وہ زندہ تھے)سی ایم ابراہیم اور کے نصیر احمد جیسے لوگوں ان کے حساس نظریات کی وجہہ سے کونے میں کردیاہے“۔

انہوں نے کہاکہ نوجوان سیاسی قائدین جیسے رضوان ارشد‘ یوٹی قدیر‘ این اے ہارس اور سیدنصیر حسین‘ پارٹی میں بھلے کا ان کا اثر اچھا ہے مگر اب بھی وہ کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل کے موقف میں نہیں ہیں۔