بی جے پی دو سو سے کم سیٹوں پر جیت حاصل کرے گی اور مودی دوبارہ وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ چیف منسٹر دہلی کجریوال

,

   

دہلی کے وزیراعلی و عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجروال نے پیش گوئی کی ہے کہ مودی اس مرتبہ وزیراعظم نہیں بنیں گے اور ان انتخابات میں بی جے پی 200سے کم نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔کیجروال جنہوں نے اے پی کی حکمران جماعت تلگودیشم کے لئے انتخابی مہم چلائی ، اس موقع پر چندرابابو نائیڈو کے ساتھ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں الزام لگایا کہ ملک میں مودی اور امیت شاہ کی آمرانہ طرز کی حکومت ہے ۔

اس کے خلاف تمام مخالف جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔ملک کو مودی اور امیت شاہ کی جوڑی سے بچانا ہے جس کے لئے جو کچھ بھی کرنا پڑے ہم اس کے لئے تیار ہیں۔دہلی، اے پی ، مغربی بنگال کے لوگ متحد ہورہے ہیں۔تمام کا یہ مقصد ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کا خاتمہ ہو۔

مودی نے وعدہ کے مطابق خصوصی درجہ نہ دیتے ہوئے اے پی کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ چندرابابو نے جدید آندھرا کی بنیاد ڈالی ہے جو ایک بڑاچیلنج تھا۔انہوں نے کہا‘‘ اے پی کے ان کے ہم منصب این چندرابابونائیڈو ایک اور مرتبہ حقیقی رہنما بن کر ابھریں گے کیونکہ وہ عوام کو چاہتے ہیں’’۔

مرکز میں مخالف بی جے پی اتحاد کے قیام کے لئے چندرابابونائیڈو کی کوششوں میں ان کا ساتھ دینے والی مختلف جماعتوں کے لیڈران اے پی میں تلگودیشم کے لئے انتخابی مہم چلانے کے لئے آگے آئے ہیں، اسی کے حصہ کے طو ر پر نیشنل کانفرنس کے سربراہ و جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی فاروق عبداللہ نے بھی تلگودیشم کے لئے انتخابی مہم چلائی تھی اور چندرابابو کے ساتھ روڈ شو میں حصہ لیتے ہوئے اس پارٹی کو کامیاب بنانے کی اپیل کی تھی۔

مرکز میں مخالف بی جے پی جماعتوں کے اتحاد میں شامل جماعتوں کے لیڈران یکے بعد دیگرے اب آندھراپردیش کا رخ کرتے ہوئے تلگودیشم کے لئے مہم چلارہے ہیں۔بتایاجاتا ہے کہ مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتابنرجی بھی تلگودیشم کے لئے انتخابی مہم چلائیں گی۔

کیجروال نے اس انٹرویو کے دوران دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ ریاست کی 25لو ک سبھا نشستوں پر تلگودیشم کامیاب ہوگی ، اسی طرح دہلی کی تمام لوک سبھا نشستوں پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چندرابابو ایک متحرک اور دوراندیش رہنما ہیں۔غریبوں اور بے روزگاروں کے لئے ان کی جانب سے کی گئی فلاحی سرگرمیاں قابل ستائش ہیں۔انہوں نے کہاکہ ریاست کی تمام لوک سبھانشستوں کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی قابل لحاظ نشستوں پر تلگودیشم کامیابی حاصل کرے گی ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں مودی اور امیت شاہ کی حکمرانی کو شکست دینا ضروری ہے کیونکہ ان دونوں نے ملک ،اس کے سیکولر ڈھانچہ ،معیشت کو برباد کردیا ہے ۔انہوں نے مختلف مذاہب کے ساتھ ساتھ ذاتوں کی بنیاد پر اختلافات پیدا کئے ہیں۔یہ دونوں ملک کے لئے کافی خطرناک ہیں۔انہوں نے قومی لیڈر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جمہوریت میں لوگ لیڈر کو منتخب کرتے ہیں،

تاہم انہوں نے اس یقین کااظہا رکیا کہ 200سے کم نشستوں پر بی جے پی کامیاب ہوگی ،این ڈی اے اکثریت سے کافی دور ہوگی اور مودی دوبارہ وزیراعظم نہیں بنیں گے ۔انہوں نے کہاکہ دہلی میں ان کی پارٹی کی جانب سے فراہم کی جارہی حکمرانی اور بالخصوص تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کئے گئے اقدامات کے چرچے نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دہلی کے عوام کی جانب سے زائد ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود کم رقم مرکز ی حکومت دہلی کو فراہم کرتی ہے جبکہ گوا ، یو پی اور گجرات جیسی ریاستوں کو زائد رقومات الاٹ کی جاتی ہیں جو دہلی کو اذیت دینے کے برابر ہے ۔انہوں نے ملک میں مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے پر دوبارہ ملک میں انتخابات نہ ہوپانے سے متعلق دیئے گئے اپنے بیان پر کہا کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے خود کہا تھا کہ یہ آخری انتخابات ہیں ۔

2019میں عوام مودی کو ووٹ دیں ، اس کے بعد ووٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انتخابات ہی نہیں ہوں گے اور ملک کا دستور بدل دیاجائے گا۔اسی انٹرویو میں چندرابابو نائیڈو نے الزام لگایا کہ مودی ، تمام دستوری اداروں کو برباد کر رہے ہیں۔

بعض ریاستوں میں سیاسی مجبوریاں ہوں گی تاہم مخالف بی جے پی جماعتیں متحد ہیں۔اس سوال پر کہ ایک طرف قومی سطح پر چندرابابو نظر رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اے پی کی زمین ان کے پیروں تلے کھسک رہی ہے توانہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ دہلی کے میڈیا اور مودی ، شاہ کی اختراع ہے ۔یہ دونوں جوڑ توڑ میں ماہر ہیں۔ریاست میں جگن کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔

جگن کی مودی اور تلنگانہ کے وزیراعلی چندرشیکھرراو کے ساتھ ملی بھگت ہے ۔

عوام ان کے خلاف برہم ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملک کے مفاد میں کانگریس کو ساتھ لانے کے لئے وہ کوششیں کر رہے ہیں ۔ایک بڑے دن کے لئے تمام لیڈروں کو قربانی دینے کی ضرورت ہے لیکن عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کوئی بھی مودی کے خلاف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی ہمت رکھتا ہے ، اس کو ووٹ دیاجائے اور انتخابات کے بعد اتفاق رائے کے ذریعہ اس سمت پیشرفت کی جائے گی۔تمام جماعتوں کا متحدہونا جمہوری مجبوری ہے ۔