ترقیاتی کاموں میں بھی فرقہ پرستی و تعصب !!

   


پرانے شہر میں میٹرو ریل کے تعلق سے مسلسل بہانہ بازیاں

حیدرآباد 28 نومبر(سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے کئے والے ترقیاتی کام بھی فرقہ پرستی اور تعصب کا شکار ہونے لگے ہیں اور سرکاری اداروں کی جانب سے اقلیتی غالب آبادی والے علاقوں کی ترقی کو نظرانداز کیا جا رہاہے جبکہ اکثریتی علاقوں کی ترقی کے اعلانات میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جاتی ۔سلطان بازار میں جب کسی جائیداد کو یا مذہبی مقام کو نقصان پہنچائے بغیر میٹرو ریل کے کام مکمل کئے جاسکتے ہیں تو پرانے شہر میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہوسکتا! فلک نما تا املی بن میٹرو ریل راہداری کیلئے عوام میں یہ بدگمانی پھیلائی جا رہی ہے کہ پرانے شہر کے عوام میٹرو ریل کیلئے اپنی جائیدادیں حوالہ کرنے آمادہ نہیں ہیں جبکہ پرانے شہر سے اس راہداری پر 4سال قبل میٹرو ریل حکام نے سڑک کی توسیع کے اقدامات کئے تھے جس پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا ۔ اس کے برعکس سلطان بازار تاجرین نے منظم انداز میں میٹرو ریل کے تعمیراتی کاموں کے خلاف احتجاج کرکے کئی دن بازار بند رکھنے کے علاوہ احتجاجی ریالیاں نکالی تھیں اور ان کے احتجاج کی اس وقت کے صدر ٹی آر ایس چندر شیکھر راؤ نے تائید کرکے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سلطان بازار سے گذرنے والی راہداری کو تبدیل کرے لیکن ٹی آر ایس اقتدار میں آنے کے بعد سلطان بازار کی تنگ راہداری میں بھی تاجرین کو نقصان پہنچائے بغیر اور کسی مذہبی ڈھانچہ کو چھیڑے بغیر میٹروریل کی تعمیر کو مکمل کرلیا گیا اور لیکن جب کبھی پرانے شہر کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پرانے شہر کی راہداری پر سڑک کی توسیع میں مشکلات کا سامنا ہے اور مذہبی مقامات کے سبب مشکلات سے نمٹنا حکام کے بس کی بات نہیں ہے لیکن جب یہی معاملہ سلطان بازار کا تھا تو وہاں بغیر کسی مشکل کے تمام امور کوحل کرلیا گیا اور میٹرو ریل کا آغاز بھی کردیا گیا۔ حیدرآباد میٹرو ریل حکام کے مطابق پرانے شہر میں میٹرو کے کاموں کے آغاز میں رکاوٹوں کو دور کرنے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن یہ اقدامات آخر کب تک مذاکرات یا منصوبہ بندی تک محدود رہیں گے! شہر کے جن علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو انجام دینے کا ذہن بنا لیا جاتا ہے ان میں جائیدادوں کا حصول اور تعمیراتی کاموں کی رفتار کا انداز ہ لگانا دشوار ہوجاتا ہے لیکن عوام کیلئے جب ترقیاتی کام کرنے ہوتے ہیں ان کا آغاز تک نہیں ہوتا۔م