ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

   

مسلم مکت بھارت … طلاق کے بعد شہریت کو خطرہ
کشمیر … خصوصی موقف نشانہ پر

رشیدالدین
بی جے پی نے ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن درپردہ طور پر ’’مسلم مکت بھارت‘‘ کے خطرناک منصوبہ پر عمل کیا جارہا ہے ۔ ان دنوں ملک میں خاموشی سے یہ کام جاری ہے ، جس کا ذکر نہ ہی انتخابی منشور میں کیا گیا اور نہ سنکلپ پتر میں ۔ بی جے پی قائدین کھلے عام کانگریس مکت بھارت کی بات کرتے رہے لیکن دراصل ان کا اصلی منصوبہ مسلم مکت بھارت ہے۔ بی جے پی کی اس سازش کا خلاصہ کسی سیاستداں نے نہیں بلکہ ملک کے نامور ، بیباک جہاندیدہ صحافی ونود دوا نے اپنے پروگرام میں کیا۔ ونود دوا ملک کی ان چنندہ آوازوں میں ایک ہے جو ہمیشہ سیکولرازم اور انسانیت دوستی کے حق میں اٹھتی رہی ہے۔ ونود دوا نے فرقہ پرست اور عدم رواداری کی طاقتوں کے خلاف ہمیشہ قوم کو جگانے کی کوشش کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض گوشوں کی جانب سے ان کے پروگرام کو روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔ انہوں نے اپنے حالیہ پروگرام میں کئی چونکا دینے والے انکشافات کئے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ وہ خود کو اکثریتی طبقہ کے محکوم تصور کرنے لگ جائیں۔ اسمبلی اور لوگ سبھا انتخابات میں ٹکٹ سے محرومی کے ذریعہ سیاسی حصہ داری میں کمی کے بعد مسلمانوں کی شہریت پر سوال کھڑا کرنے کی تیاری ہے۔ محمد بن قاسم تو 711 ء میں ہندوستان آئے لیکن ان سے قبل ہی مسلمان ہندوستان میں بسنے لگے۔ ملک کی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری کی پرواہ کئے بغیر قومی شہریت رجسٹر اور شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ شہریت سے محروم کرنے کا خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ آسام اور مغربی بنگال سے غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کو ملک بدر کرنے کیلئے NRC متعارف کیا گیا اور ایک جنبش قلم سے لاکھوں نام ووٹر لسٹ سے حذف کردیئے گئے ۔ ونود دوا کے مطابق ملک میں غیر قانونی شہریوں کے لئے حراستی مراکز قائم کئے جائیں گے۔ ویسے بھی مرکزی حکومت نے حراستی مراکز کے قیام کے سلسلہ میں تمام ریاستوں کو ہدایات جاری کردی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حراستی مراکز کے بعد غیر قانونی افراد کو کہاں منتقل کیا جائے گا۔ کونسا ملک ان محروسین کو قبول کرے گا ؟ این آر سی تو صرف آسام کے لئے تھا، اسے ملک بھر میں عمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ نشانہ پر صرف مسلمان ہی ہوں گے ۔ بی جے پی اور سنگھ پر یوار کے مخالف مسلم ایجنڈہ کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو خاندانوں کو نہ صرف پناہ بلکہ شہریت دی جائے گی۔ استدلال یہ پیش کیا جارہا ہے کہ تینوں اسلامی مملکتیں ہیں اور وہاں ہندو اقلیت میں ہیں۔ این آر سی کے تحت شناختی کارڈ کے لئے ہر مسلمان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ قانوناً ہندوستانی شاہری ہے۔ یہ سارا عمل صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے ہے تاکہ انہیں حاشیہ پر لائیں اور اطراف گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان کی آزادی چھین لی جائے ۔ اسی سازش کے حصہ کے طور پر انسداد غیر قانونی سرگرمیاں ترمیمی بل کو منظوری دی گئی جس کا راست طور پر نشانہ مسلمان ہوں گے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شبہ کی بنیاد پر کسی انفرادی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک بار دہشت گردی کا لیبل لگ جائیں تو پھر اس کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ قانون کی منظوری سے قبل ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں دہشت گردی کے الزامات کے تحت ملک کی کئی جیلوں میں مسلم نوجوان نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ بم دھماکوں اور دیگر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث زعفرانی بریگیڈ کے ارکان جنہیں جیلوں میں ہونا چاہئے ، وہ پارلیمنٹ اور اقتدار کی راہداریوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ شہریت کے ساتھ ساتھ شریعت بھی نشانہ پر ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے منصوبہ کی سمت تیزی سے قدم بڑھانے والی بی جے پی نے طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دیتے ہوئے قانون سازی میں کامیاب ہوچکی ہے۔ آگے چل کر حلالہ پر پابندی اور وراست نے لڑکیوں کو مساوی حقوق کے لئے بھی قانون سازی کی جاسکتی ہے ۔ کشمیر سے متعلق دستور کی دفعہ 35A کی برخواستگی کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ 10,000 فوجیوں کو کشمیر میں تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ عوامی احتجاج کو کچل دیا جائے۔ ڈسمبر تک رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ کوگرما دیا جائے گا۔ راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود اپوزیشن میں پھوٹ پیدا کرتے ہوئے بلز کی منظوری کی راہ ہموار کرلی گئی ۔ ایک طرف یہ سرگرمیاں جاری ہیں تو دوسری طرف ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے وا قعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ نریندر مودی نے عالمی سطح پر بدنامی اور تنقیدوں سے بچنے کے لئے ان واقعات پر افسوس کا اظہار کیا لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ نے آج تک زبان نہیں کھولی ۔ حالانکہ لاء اینڈ آرڈر ان کی وزارت کا معاملہ ہے ۔ مغربی بنگال اور کیرالا میں بی جے پی کارکنوں پر حملوں کی امیت شاہ کو فکر ہے لیکن ملک میں روزآنہ کسی نہ کسی عنوان سے مسلمانوں کے قتل کا کوئی غم نہیں۔ ویسے بھی غم اور دکھ اسے ہوگا جس کے لئے یہ واقعات نئے ہوں۔ جس شخص نے گجرات میں 4000 سے زائد مسلمانوں کے خون کی ہولی ریاست کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے دیکھی ہو ، اسے یکا دکا واقعات متاثر نہیں کرسکتے۔ کسی نے اس کی مثال سلاٹر ہاؤز دی ہے۔ عام آدمی ایک جانور کو ذبح کرتے ہوئے بے چین ہوجاتا ہے لیکن پیشہ ور قصاب کو سینکڑوں جانوروں کو ذبح کرنے پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ایک تو اس کا پیشہ ہے ، دوسرا اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔

شریعت اور شہریت پر حملوں کی کوشش کے باوجود پتہ نہیں کیوں مسلمانوں کی ایمانی حرارت سو گئی ہے جس کے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی امور میں نمائندگی کرنے والے اداروں نے صرف مذمتی بیانات تک خود کو محدود کرلیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کے بعد اپنا ہنگامی اجلاس طلب نہیں کیا۔ موجودہ حالات میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی مجاہدانہ قیادت یاد آرہی ہے۔ جس وقت حکومت نے اسکولوں میں سوریا نمسکار کو لازم قرار دینے کا اعلان کیا تھا تو مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اعلان کردیا کہ تمام مسلمان اپنے بچوں کو ان اسکولوں سے نکال لیں گے جہاں یہ متنازعہ گیت لازمی ہے۔ حکومت پر اس اعلان کا ایسا اثر ہوا کہ احکامات کو واپس لینا پڑا۔ جمہوریت میں ہر فورم میں احتجاج کی گنجائش موجود ہے لیکن شریعت کے مسئلہ پر قیادتیں احتجاج سے گھبرا رہی ہیں۔ حکومت کو اندیشہ تھا کہ طلاق ثلاثہ بل پر ملک بھر میں مسلمانوں کا غصہ پھوٹ پڑ ے گا لیکن بقول کسی صحافی کے ایک چوہا بھی بل سے باہر نہیں نکلا۔ بی جے پی نے طلاق ثلاثہ کو مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کے امتحان کے طور پر پیش کیا اور اس امتحان میں مسلمان ناکام ہوگئے۔ اب بی جے پی کچھ بھی کرسکتی ہے اور مسلمانوں کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔ طلاق ثلاثہ کی صورت میں تین سال قید کی سزا کے بعد کوئی بھی طلاق دینے کی ہمت نہیں کرے گا بلکہ اس کے لئے نریندر مودی آئیڈیل ہوں گے جو اپنی شریک حیات کو نہ ہی قبول کر رہے ہیں اور نہ طلاق کے ذریعہ رشتہ توڑ رہے ہیں، انہیں آئیڈیل بناکر ہر کوئی خواتین کو طلاق دیئے بغیر معلق رکھ دیں گے۔ جہاں تک مسلمانوں کے ردعمل کا سوال ہے ، ہر معاملہ میں علماء ، مشائخ اور قیادتوں پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں۔ وہ آخر کب تک جگانے کی کوشش کریں گے۔ قوم جب بے حس ہوجائے تو قیادتوں کی آواز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اسپین کی طرح مسلمانوں کی شریعت ، شناخت اور تہذیب کو مٹادیا جائے گا ۔ ہم سے اچھے تو ٹاملناڈو کے عوام ہیں جو جلی کٹو جیسی رسم کو برقرار رکھنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ آخری کار سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ ٹاملناڈو کی عوام کے لئے جلی کٹو ایک آستھا کا مسئلہ تھا لیکن افسوس کہ ہم شریعت کے بارے میں مردہ قوم بن چکے ہیں۔ آخر اس بے حسی کی وجہ کیا ہے؟ خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے کوئی آسمان سے فرشتہ تو نہیں آئے گا ۔ ہمیں خود اپنا مقدر طئے کرنا ہوگا۔ کسی بزرگ نے کہا ہے کہ جب سے مسلمانوں نے مغربی کمپنیوں کی تیار شدہ غذاؤں کا استعمال شروع کردیا ہے ، ان کی ایمانی حرارت کمزور ہوچکی ہے۔ انہیں کسی بھی معاملہ میں یہ احساس نہیں کہ مغرب کی غذائیں کن حرام اجزاء پر مشتمل ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب غذائیں حرام ہوں گی تو پھر اس کا منفی اثر ضرور ہوگا۔ مسلمانوں کو شائد اس وقت غصہ آئے جب حکومت ان کے مفادات پر ضرب لگائے گی۔ وراثت میں لڑکیوں کو برابر کا حصہ دینے کا قانون جب منطوری کے مرحلہ میں ہوگا ، اس وقت اپنے حصہ کو بچانے کیلئے مسلمان آواز بلند کریں گے۔ شریعت میں مداخلت کے مسئلہ پر کئی نام نہاد سیکولر جماعتوں کا نقاب الٹ چکا ہے ۔ ٹی آر ایس ، تلگو دیشم اور جنتا دل یونائٹیڈ نے ہمیشہ مسلمانوں کی ہمدردی کا ڈھونگ کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن جب پارلیمنٹ میں شریعت میں مداخلت کی جارہی تھی تو ان پارٹیوں نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کی بالواسطہ تائید کی۔ ٹی آر ایس نے آر ٹی آئی بل کی تائید کیلئے اپنے ارکان کو چارٹرڈ فلائیٹ سے نئی دہلی روانہ کیا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہے اور ہر ایک کے نزدیک مسلمان ووٹ بینک سے زیادہ کچھ نہیں۔ مسلمانوں کو سیاسی جماعتوں پر انحصار کئے بغیر خود ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر ابھرنا ہوگا۔ علامہ اقبال نے قوم کو کچھ اس طرح مخاطب کیا ؎
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے