تعلیمی سال کے آغاز پر اپنے نوجوان طلبہ سے چند گزارشات||از : سید احمد اُنیس ندوی

,

   

اللہ تعالی کا خاص فضل و کرم ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو یہ موقع عنایت فرمایا کہ آپ تفقہ فی الدین حاصل کرنے کی غرض سے مختلف مدرسوں میں پہنچ چکے ہیں اور داخلے وغیرہ کی کارروائ میں مشغول ہیں۔ آپ کا یہ طالب علم بھائی اس موقع پر آپ سب سے ترتیب وار کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔ میری ان گزارشات کو آپ حضرات کوئی نصیحت یا وعظ ارشاد نہ سمجھیں بلکہ یہ خود میرے اور میرے متععد ساتھیوں کے طالب علمانہ دور کی تعلیمات اور تجربات کا خلاصہ سمجھیں :

1- “تحصیل علم” کے لیے “تصحیح نیت” بہت اہم ہے۔ خوب غور کر لیں کہ ہم قرآن و حدیث کا یہ علم کس غرض سے حاصل کر رہے ہیں ؟؟؟ ” و من اراد الآخرۃ و سعی لھا سعیھا و ھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا” آیت مبارکہ پر خوب غور و فکر کر کے معتبر تفاسیر میں اس آیت کی تفسیر پڑھ لیں۔ 2- سخت محنت اور مجاہدے کے بغیر علم کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ سب سے پہلے مطالعہ پھر استاذ کے درس کو غور سے سننا اور اسے نوٹ کرنا اور پھر ساتھیوں کے ساتھ اس کا مذاکرہ و تکرار بہت اہم ہے۔ پہلے دن سے ان تینوں کاموں کا اہتمام بالکل لازم سمجھیں۔ 3- جہاں تک ممکن ہو اردو کی شروحات سے بچیں, ابتدائی درجوں میں تو ہرگز نہیں۔ بلکہ کوشش یہ ہو کہ عبارت حل ہو, حاشیہ سے مدد لیں۔ آپ جتنا زیادہ محنت کر کے براہ راست کتاب کی عبارت حل کریں گے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ عربی الفاظ کو عربی لغت کی مدد سے ہی حل کریں۔4- نحو و صرف میں مہارت پیدا کر کے اعراب وغیرہ کی غلطی سے اپنے کو بچایا جا سکتا ہے, اور اس میں کمال پیدا کرنے کے لیے “عربی ادب” کا کثرت سے مطالعہ اپنے اساتذہ کرام کے مشورے اور ان کی نگرانی میں کرتے رہیں۔ 5- اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام نہایت ضروری ہے۔ اساتذہ کرام کے تعلق سے اپنے دل و دماغ کو اور اپنی زبان و قلم کو بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کریں۔ ذرائع علم جتنے بھی ہیں ان سب کا لحاظ ضروری ہے۔6- گناہوں اور معصیت کے ساتھ علم کا نور کبھی جمع نہیں ہو سکتا اور ایسا علم نہ اپنی ذات کو فائدہ دیتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ اس لیے گناہوں سے اپنے کو بہت بچائیں۔ خصوصاً آنکھ اور زبان کا استعمال بہت تقوی اور پرہیزگاری کے ساتھ ہو۔ 7- تلاوت قرآن مجید, مسنون اذکار, ماثور دعائیں اور چند نوافل روزانہ کا معمول بنائیں, ان اعمال سے دل منور ہوتا ہے, اور تعلق مع اللہ میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ ہر حال میں مطلوب ہے۔ 8- بڑے والے موبائل اور سوشل میڈیا کا استعمال بلاشبہ تحصیل علم میں بہت بڑی رکاوٹ اور یکسوئی میں مُخِل ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ اس وقت ضائع ہی نہ ہو۔ 9- علم میں عمق کے لیے نصاب کی کتابوں میں اچھی استعداد پیدا کرنا ضروری ہے, اور علم میں وسعت کے لیے خارجی مطالعہ شرط ہے۔ ان دونوں کے درمیان خوبصورت امتزاج پیدا کریں۔ افراط و تفریط سے ہر حال میں بچیں۔ 10- خالی اوقات میں کوئی ایسا فن یا کوئی ایسی مہارت بھی حاصل کی جا سکتی ہے جسے تعلیم کے بعد اپنا ذریعہ معاش بنایا جا سکے۔ ۔ خصوصاً خالی اوقات میں انگریزی زبان یا کمپیوٹر وغیرہ کے کورس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس کی وجہ سے تعلیم متاثر ہو تو یہ فکر کرنے کی بات ہے۔11- آپ کو درسی کتابوں میں جس فن سے مناسبت ہو اس فن سے متعلق کتابوں اور اس کی عربی شروحات پر شروع سے ہی خاص توجہ دیں۔ اور اس فن کو سب سے زیادہ وقت دیں۔ 12- پیغامات کی ترسیل اور دین کی تبلیغ کے لیے تقریر و تحریر میں کمال پیدا کرنا بھی اہم ہے۔ لہذا مدرسے کی طرف سے منعقد ہونے والے ثقافتی پروگراموں میں خوب ذوق و شوق سے شرکت کریں۔13- اردو ادب کا معیاری ذوق بھی بہت اہم ہے۔ اپنے استاذہ کرام کی نگرانی میں اس جانب بھی خاص توجہ دیں۔ معیاری اشعار اور نثری اقتباسات حفظ کر لیں۔ 14- دوران طالب علم سادگی, محنت اور جفا کشی کو اپنی پہچان بنائیں۔ تعیش, فضول خرچی اور غیر سنجیدگی سے اپنے کو بچائیں۔15- صفائی ستھرائی, نظم و ضبط, سلیقہ اور حسن انتظام یہ سب طالب علم کی صفات ہیں۔ ہر عمل میں ان کا اظہار ہونا چاہیے۔ جو کھانا پینا میسر ہو شکر ادا کر کے خوشی کے ساتھ اس پر قناعت کریں۔ 16- تکبیر اولی کے ساتھ مسجد میں نماز پنج گانہ کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ نماز میں سستی اور کاہلی تو نفاق کی علامت ہے۔ اس لیے اس سے بہت بچیں۔ اپنا حلیہ , چہرہ اور لباس ایسا رکھیں جو واقعی قرآن و حدیث کے عالم کے شایان شان ہو۔ 17- اگر آپ کے مدرسے میں کوئی صاحب نسبت استاذ ہیں اور ان کی اصلاحی مجلس منعقد ہوتی ہے تو بغرض استفادہ وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہیں۔ 18- عالم اسلامی کے حالات سے ہمارے اونچے درجے کے طلبہ کو تو کم از کم ضرور واقف رہنا چاہیے۔ اسی طرح اسلامی اخوت کا آفاقی تصور بھی ان کے ذہنوں میں مستحضر رہے۔ علمی اختلافات کی حدود بھی واضح رہیں۔ اختلاف کا ادب بھی سیکھا جائے۔ یہ سب مکارم اخلاق کا حصہ ہیں۔ 19- دوران طالب علمی کسی بھی دینی تحریک, تنظیم کے ایسے پرجوش اور اسی میں منہمک ایسے داعی و مبلغ نہ بنیں جس سے آپ کی پڑھائی ذرا بھی متاثر ہو۔ یہ سارے کام تو بعد میں بھی ہو جائیں گے۔ مگر مدرسے کا یہ علمی ماحول دوبارہ میسر نہیں ہوگا۔ ہر طرح کی عصبیت و گروہ بندی سے اپنے کو بچائیں۔ 20- اپنے خود کے تعلیمی معیار پر برابر نظر رکھیں, اپنی صلاحیت و استعداد کو خود بھی جانچتے رہیں, اگر اضافہ محسوس ہو تو شکر ادا کر کے مزید محنت کریں, اور اگر اضافہ محسوس نہ ہو بہت سنجیدگی کے ساتھ سرپرستوں اور اساتذہ کرام سے اس سلسلے میں مشورہ لیں اور یہ فکرمندی آخر آخر تک جاری رکھیں۔

و ما توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب۔