تلنگانہ واپس ہونے والے باشندے

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن توڑنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ اب پولیس بھی ڈنڈے مار مار کر تھک گئی ہے ۔ بازار بند ہیں لیکن جہاں کہیں دکانات کھلی ہیں لوگ اُمڈ پڑ رہے ہیں ۔ سڑکوں پر ٹریفک کو دیکھ کر اطمینان ہورہا ہے کہ کورونا وائرس کے ساتھ جینے کا مشورہ عوام کے دل کو چھو گیا ہے ۔ بعض جگہ سڑکوں ، محلوں ، گلیوں میں چہل پہل دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہنے والوں نے کورونا وائرس کا سامنا کرنے کے لیے اپنے سینے تان لیے ہیں ۔ احتیاط سے کام نہ لینے کا عزم کرتے ہوئے لوگوں نے عدم احتیاط کا طرُم خاں ہونے کا دعویٰ بھی کردیا ہے ۔ کورونا وائرس جیسی وباء ان لوگوں کے لیے کوئی خطرناک چیز نہیں ہے ۔ شاید لوگ اس بہادری سے کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے سڑکوں پر نکل پڑے ہیں ۔ علمائے کرام نے تک کہہ دیا ہے کہ عید کی نماز کے بجائے دو رکعت شکرانہ گھر میں ادا کرنی ہے ۔ جمعتہ الوداع بھی گھر میں ہی ظہر کی نماز پڑھ کر ادا کرلیں ۔ علماء کو بھی احساس ہے کہ اگر کورونا وائرس کا ایک بھی مریض کسی گلی یا محلے میں داخل ہوجائے تو وہ گلی یا محلہ کورونا کی زد میں آجائے گا ۔ اس وباء کا علاج گھروں میں رہنا ہے ۔ وائرس کے پھیلنے کا خوف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو بھی ہے ۔ خاص کر ریاست کو واپس ہونے والوں کے بارے میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ ریاست کے باشندے جو ملک کی دیگر ریاستوں میں روزگار کے لیے گئے تھے یا بیرون ملک مقیم تھے اب یہ لوگ تلنگانہ اپنے آبائی مقامات کو واپس ہوچکے ہیں اور بعض راستے میں چل پڑے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ میں روزگار کے حصول کے لیے پہونچنے والے دیگر ریاستوں کے باشندے بھی یہاں سے جارہے ہیں ۔ کوئی آرہا ہے تو کوئی جارہا ہے ۔ اس لیے چیف منسٹر کو ڈر ہونے لگا ہے کہ اگر یہ آنے والے باشندے اپنے ساتھ کورونا وائرس لائیں تو پھر تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں بھی وائرس پھیل جائے گا ۔

فی الحال یہ وائرس اپنی شدت کے ساتھ صرف گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے دائرے میں ہی اثر دکھا رہا ہے ۔ تلنگانہ کے ماباقی اضلاع وائرس سے محفوظ ہیں ۔ شہر حیدرآباد میں کورونا کے ہر روز نئے کیس آرہے ہیں ۔ اگر شہریوں کو اس کا اندازہ نہیں ہے تو وہ بے خبر ہو کر باہر نکل رہے ہیں ۔ کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے اپنے اپنے حصہ کو دیانتداری ادا کرنا شروع کیا ہوتا تو یہ وباء بہت جلد ختم ہوجاتی لیکن مرکز اور ریاستوں کے درمیان وزیراعظم نریندر مودی کی پانچویں مرتبہ ویڈیو کانفرنس کے باوجود کورونا وائرس جانے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ اس ملک کے عوام بھی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ حکومتوں سے سوال کرنے سے ہی ڈرتے ہیں ۔ حکومت جو بھی غلط فیصلے کرے گی اس پر خاموشی اختیار کرتے جاتے ہیں ۔ غریب مزدور بھی تمام مصیبتیں جھیل کر چپ چاپ اپنے اپنے گاؤں کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے گھر جاکر کورونا وائرس کو نہیں پھیلاتے ہیں تو یہ اس علاقہ کے عوام کے لیے اچھی بات ہے ورنہ جو کوئی اپنے وطن جاتا ہے ساتھ ہی وائرس بھی لے جائے تو پھر مقامی حکومت اور حکام کے لیے پریشانیاں بڑھ جائیں گی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ان میں اندیشوں کے تحت محکمہ صحت کے حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ اب تک ریاست واپس ہونے والے 41,000 باشندوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ یہ لوگ سڑک ، ریل اور فضائی راستوں سے پہونچے ہیں ۔ مرکز نے تو ان باشندوں کو جانے کی اجازت دے دی ہے ۔ اب تک سڑک کے راستے 41,805 باشندے ٹرینوں سے 239 اور پروازوں کے ذریعہ 798 باشندے تلنگانہ پہونچ چکے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں مزید لوگ آئیں گے ۔ ان کی آمد ان کے گھر والوں کے لیے خوشی و اطمینان کا باعث ہے مگر حکومت کی خاص کر محکمہ صحت کے ذمہ داروں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں ۔ تلنگانہ کے وزیر صحت ایٹالہ راجندر نے تمام ایجنسیوں کے ذمہ داروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ تیار رہیں اور ان آنے والے باشندوں پر کڑی نظر رکھیں لیکن ان میں سے کئی ایسے باشندے ہیں جو حکومت سے نظریں بچا کر اپنے اپنے مقامات کو پہونچ چکے ہیں ۔ اگر یہ لوگ 14 دن تک کورنٹائن ہوتے ہیں تو وائرس پھیلنے کا خطرہ کم ہوگا ۔ ورنہ آنے والے دنوں میں شہر حیدرآباد کی طرح تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں بھی ہر روز نئے کیس سامنے آئیں گے ۔ ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے مریضوں کا بہتر علاج کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے لیکن حکومت کے دعویٰ کے مطابق کام دکھائی نہیں دیتا ۔ حکومت نے اپنے وطن واپس ہونے والے باشندوں کے اسکرین ٹسٹ نہیں کروائے ہیں اور نہ ہی ان باشندوں کو ائیسولیٹ کیا گیا ہے ۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں باشندے پڑوسی ریاستوں جیسے اوڈیشہ ، بہار ، جھارکھنڈ ، مغربی بنگال اور راجستھان میں رہ کر تلنگانہ واپس ہوئے ہیں ۔ جب کہ ان ریاستوں میں کورونا وائرس کے کیس پائے جاتے ہیں ۔ تلنگانہ میں اس وائرس پر قابو پانے کے لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی جدوجہد جاری ہے ۔ شہر حیدرآباد میں ہی اس وائرس کی گشت بڑھتی جارہی ہے جو تشویشناک ہے ۔ وائرس نے لاک ڈاؤن لانے پر مجبور کردیا اور یہ لاک ڈاؤن وائرس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے جارہا ہے ۔ حکومت نے شائد ملک کے ایک بڑے حصہ کو بھکاری بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

اگر ایسا ہوا تو پھر سماجی مسائل پیدا ہوں گے ۔ لوگ روٹی کے لیے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑیں گے بلکہ منہ کا نوالہ بھی چھین لینے کے لیے خون ریزی پر اُتر آئیں گے ۔ قانون شکنی واقعات میں اضافہ ہونے لگے تو پھر حکومتوں کو ان اُبھرتے مسائل پر قابو پانا ایک سنگین و نازک مسئلہ ہوگا ۔ حکومت اپنے سامنے کسی بھی اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لا رہی ہے ۔ جب اپوزیشن کا احترام ہی باقی نہ رہا تو اس حکومت بے لگام ہونے کے ساتھ سرکش بھی ہوجاسکتی ہے ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کانگریس نے ایک سے زائد مرتبہ مفید مشورے دئیے ہیں لیکن اپوزیشن کی بات کو سنی اَن سنی کردی گئی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی حکومت کا رویہ ایسا ہی رہا تو ایک دن ہندوستان کو مشکل ترین معاشی مسائل کا شکار ہونا پڑے گا ۔ ہر طرف روزگار کی کمی اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوجائیں گی ۔ مرکز کا کام ہے کہ وہ ریاستوں کی ہر ممکنہ مدد کرے ۔ اہم مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ریاستوں کو مرکز کی مدد ضروری ہوتی ہے ۔ حالیہ ویڈیو کانفرنس میں کئی ریاستی چیف منسٹرس نے وزیراعظم مودی سے اس موضوع کی جانب توجہ دلائی ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے کئی دفعہ کہا ہے کہ مرکز کو فوری طور پر ریاستوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا ۔ اگر مرکز کا رویہ اسی طرح کا رہا تو سوچنے کا وقت بھی گذر جائے گا ۔ یہ دعا اور معافی مانگنے کا وقت ہے ۔ عوام گھروں میں بیٹھ بیٹھ کر بیزار آچکے ہیں ۔ لاک ڈاون میں بڑے لوگوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ایسے افراد کے گھر میں ہر روز پارٹیاں چل رہی ہیں ۔ افطار کی دعوتیں بھی ہورہی ہیں ۔ فارم ہاوزس پر جمع ہو کر جشن بھی منائے جارہے ہیں ۔ اصل مسئلہ تو متوسط طبقہ اور غریبوں کا ہے جو قانون کے رکھوالوں کے خوف سے گھروں میں بند ہیں ۔ حکومت کے مشورہ کے مطابق منہ پر ماسک لگائے ، سماجی دوری برقرار رکھتے ہوئے دو گز کا فیصلہ ناپ کر لاک ڈاؤن کے دن گذار رہے ہیں ۔