تلنگانہ کے تعلق سے وزیراعظم مودی کی لاعلمی

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے بارے میں مرکز کے رویہ اور فنڈس کی اجرائی میں نانصافی کی شکایت کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ مرکزی بجٹ میں ریاست کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا گیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر کا جواب دیتے ہوئے یو پی اے حکومت کی جانب سے ریاست تلنگانہ کے قیام کے لیے پیش کردہ بل پر تبصرہ کیا ۔ تلنگانہ کے قیام کو عجلت میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا اور ریاست کے قیام سے قبل آندھرا اور تلنگانہ کے عوام سے بھی مشاورت نہیں کی گئی ۔ مودی نے کہا کہ بی جے پی نے سال 2000 میں 3 ریاستوں کو پرامن طور پر وجود میں لایا جو اب ترقی کررہی ہیں لیکن تلنگانہ کے قیام کا فیصلہ کرنے سے قبل سابق یو پی اے حکومت نے بنیادی مسائل پر غور نہیں کیا ۔ وزیراعظم مودی کے اس بیان نے تلنگانہ کی حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے قائدین کو بے چین کردیا ۔ ساتھ ہی اس علحدہ تلنگانہ تحریک سے وابستہ تمام افراد کے لیے مودی کا بیان تعجب خیز ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گجرات کے لیڈر مودی کو تلنگانہ تحریک کی تاریخ کا علم نہیں ہے ۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے لیے 1956 سے جدوجہد چل رہی تھی ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کو جنوبی ہند کی تاریخ سے بھی واقف ہونے کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے اندھا دھند طریقہ سے پارلیمنٹ میں بلوں کی منظوری کی جو عادت بنالی ہے اس عادت کے تحت وہ تاریخی حقائق کو بھی نظر انداز کررہے ہیں ۔ سال 2019 میں کامیابی کے بعد بی جے پی حکومت بے لگام دوڑ رہی ہے اور ریاستوں کے ساتھ اس کا رویہ جانبدارانہ اور معاندانہ دکھائی دے رہا ہے ۔ قومی سلامتی کے نام پر ملک کے ٹکڑے کرنے والے قوانین لاکر مودی حکومت اکثریتی قوم پرستی کے بہانے سماج کو منقسم کررہی ہے ۔ سی اے اے نے آج سارے ملک کو پریشان کر رکھا ہے ۔ پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی طاقت کا بیجا اور غیر دستوری طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے قانون لانے کو ایک کامیاب حکمرانی سمجھی جارہی ہے ۔ سی اے اے کے بعد سارا ملک مضطرب اور پریشان ہے اس طرح کشمیر میں آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے 6 ماہ بعد بھی سکون نہیں ہے ۔ سیاسی قائدین اور عوام الناس کو مقید کر کے رکھا گیا ہے ۔

سیاحت ٹھپ ہے اس کے باوجود مودی حکومت اپنی کارکردگی کو بہترین ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ریاستی حکومتوں کے ساتھ مرکزی حکومت کا رویہ غیر دوستانہ ہے ۔ تلنگانہ کے معاملہ میں تو مودی حکومت نے حد سے زیادہ جانبداری برتنا شروع کیا ہے ۔ سی اے اے کو لاگو کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ این آر سی کی تیاری کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے جب کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے سی اے اے کے خلاف قرار داد منظور کر کے ملک کا پہلا بلدی ادارہ ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ۔ تلنگانہ کے قائدین ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ یہاں سی اے اے ، این آر سی پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ سیاسی مقاصد کے لیے مودی حکومت نے ریاستوں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے عوام کے اندر بے چینی پیدا ہورہی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی غیر ضروری تلنگانہ کے عوام کے ساتھ الجھ رہے ہیں ۔ یہ عوام سیکولر مزاج رکھتے ہیں اور انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد تلنگانہ حاصل کیا ہے اور تحریک کس طرح چلائی جاتی ہے اور اس میں کامیابی کس طرح حاصل کی جاتی ہے اس سے واقف ہیں ، اگر مرکز نے سی اے اے اور این آر سی پر دباؤ ڈالا تو تلنگانہ کے عوام طویل جدوجہد کے لیے دوبارہ کمر کس لیں گے ۔ کیوں کہ عوام جان چکے ہیں کہ مودی حکومت نے سی اے اے ، این آر سی کو غیر دستوری اور غیر جمہوری طور پر لاگو کیا ہے ۔ سیاستداں اگر خود غرض ہوجائیں تو عوام کو اُٹھ کھڑے ہونا پڑتا ہے ۔ عوام اب کسی بھی طرح حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے مجبور ہوں گے کیوں کہ مرکز میں جب سے بی جے پی کو اقتدار ملا ہے ملک کی سیاست تباہ ہوئی ہے اور اب معیشت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے ۔ مودی حکومت کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ معیشت کدھر جارہی ہے ۔ مودی حکومت سے ریاستوں کی ناراضگی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ریاستوں کو ان کا مرکزی حق دینے میں کنجوسی کرنے والی مودی حکومت کو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ریاستوں کی ترقی کے لیے مرکز کی امداد لازمی ہوتی ہے ۔ تلنگانہ کے تعلق سے مرکزی حکومت کی یہ شکایت بھی غور طلب ہے کہ کے سی آر حکومت میں رشوت ستانی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ تلنگانہ کی حکمراں پارٹی بھی خود کو ناقابل شکست سیاسی طاقت سمجھنے لگی ہے ۔ ٹی آر ایس کے سربراہ تو خود کو عوام کے فیصلوں سے بالاتر محسوس کررہے ہیں ۔ عوام کا خط اعتماد حاصل کرکے وہ یا ان کے ساتھ اندھا دھند طریقہ سے بدعنوانیوں میں ملوث ہورہے ہیں ۔ اس لیے تلنگانہ ہائی کورٹ نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے قریبی ساتھی جوپلی رامیشور راؤ کو قیمتی اراضیات الاٹ کرنے کے خلاف داخل کردہ مفاد عامہ کی درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرلیا ہے ۔ کروڑہا روپئے لاگتی اراضیات کو بغیر اسٹامپ ڈیوٹی ادا کیے ہی الاٹ کئے جارہے ہیں ۔ پردیش کانگریس کمیٹی کے کارگذار صدر اور ملکاجگیری ایم پی اے یونت ریڈی نے حال ہی میں ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ کے سی آر حکومت ریاست کی خاص کر حیدرآباد کی اطراف و اکناف کی قیمتی زمینات کوڑیوں کے دام مائی ہوم گروپ کے حوالے کی ہیں اور 38 کروڑ روپئے کی اسٹامپ ڈیوٹی سے بھی استثنیٰ دیا ہے ۔ ریاست کی آئی ٹی پالیسی کے مطابق گچی باولی کے اطراف کی اراضیات صرف آئی ٹی کمپنیوں کو دی جانی چاہئے لیکن رہائشی پراجکٹ کے لیے کام کرنے والی کمپنیوں کو یہ اراضیات دی جارہی ہیں ۔ کے سی آر حکومت حیدرآباد کے اطراف و اکناف کی قیمتی اراضیات کو کسانوں سے کم قیمت میں خرید کر کے بڑے اداروں کے حوالے کررہی ہے ۔ خاص کر رنگاریڈی میں جی او III نافذ کر کے یہاں کی تمام اراضیات کی قیمتیں گرا کر سستے دام میں اسے خریدا جارہا ہے ۔ اس خریدی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہی کے سی آر حکومت جی او III پر نظر ثانی کر کے اچانک ان اراضیات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرے گی ۔ مرکز کی جانب سے ریاستوں کو ملنے والے فنڈس کی کمی کی شکایت کرنے والی حکومت خود تلنگانہ کے وسائل کے ساتھ سودا کررہی ہے تو یہ ایک سانحہ اور المیہ ہے کیوں کہ تلنگانہ کے قیام سے قبل ٹی آر ایس نے یہاں کی قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین سے استفادہ کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ ریاست تلنگانہ کے تمام قیمتی قدرتی وسائل اور اراضیات پر چند مخصوص پارٹی وفاداروں یا کے سی آر کے حواریوں کو فائدہ پہونچایا جارہا ہے ۔۔