جو اہل حق ہیں وہ تعداد سے نہیں ڈرتے

   

طلاق ثلاثہ بل… مخالف مسلم ایجنڈہ برقرار
مغربی بنگال … صدر راج کی سازش

رشیدالدین
نریندر مودی کو دوسری مرتبہ اقتدار تو مل گیا لیکن ایجنڈہ وہی نفرت کا برقرار ہے۔ ظاہر ہے کہ جس ایجنڈہ نے دوسری مرتبہ کامیابی دلائی اسے آسانی سے ترک نہیں کیا جاسکتا۔ حلف برداری کے بعد این ڈی اے ارکان سے خطاب کے دوران نریندر مودی نے جس طرح مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ترقی کے یکساں مواقع کا ذکر کیا، توقع کی جارہی تھی کہ مودی کا دل بدل گیا ہے لیکن کابینہ کے پہلے اجلاس کے فیصلوں نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مسلمان فطرتاً بھولے ہیں اور بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود سیاستدانوں کی لفاظی اور میٹھی باتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر گزشتہ 70 برسوں سے سیاسی جماعتیں استحصال کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کی قیادت کے دعویداروں نے بھی دوست اور دشمن کی پہچان نہیں کرائی ۔ شائد انہیں اس بات کا خوف ہے کہ شعور بیداری سے ان کی اصلیت بے نقاب نہ ہوجائے ۔ قیادت کے ان دعویداروں کو اکثر کسی نہ کسی پارٹی کا بالواسطہ یا بلا واسطہ آلہ کار دیکھا گیا ۔ کمزور اور مصلحت پسند قیادتوں کے نتیجہ میں فسطائی اور جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو سر ابھارنے کا موقع ملا ۔ الغرض مخالفت کی پرواہ کئے بغیر بی جے پی حکومت نے پہلے کابینی اجلاس سے مسلم دشمنی کے ایجنڈہ کو اختیار کیا ۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی سے متعلق بل کو منظوری دی گئی جو 17 دنوں سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ سیشن میں پیش کیا جائے گا ۔ یہ بل منظوری کی صورت میں آرڈیننس کی جگہ لے گا ۔ طلاق ثلاثہ بل کو لوک سبھا کی منظوری حاصل ہوچکی ہے جبکہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کو اکثریت کے نتیجہ میں حکومت کو دو مرتبہ ناکامی ہوئی ۔ کابینہ کے پہلے اجلاس میں پہلے ایجنڈہ کے طور پر مخالف مسلم اور مخالف شریعت فیصلہ سے حکومت کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہندو راشٹر کی تشکیل ہے۔ ہندو راشٹر کا مطلب شریعت اسلامی کی جگہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ہے جو کہ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ہے۔ نریندر مودی حکومت سنگھ پریوار کے ایجنڈہ سے انحراف نہیں کرسکتی۔ ویسے بھی جس حکومت نے امیت شاہ کو دوسری بااثر اور بااختیار شخصیت کا درجہ حاصل ہو، اس حکومت کی کارکردگی کا متنازعہ ایجنڈہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ بی جے پی ہر حال میں ہندو ووٹ بینک مستحکم رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری میعاد میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد حساس اور متنازعہ امور کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔ دوسری میعاد میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے علاوہ سب کا وشواس کا نعرہ لگایا گیا ۔ تمام طبقات کا وشواس صرف اور صرف ’’وکاس‘‘ یعنی ترقی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بظاہر یہ نعرہ تمام طبقات کیلئے ہے لیکن حکومت کی پہلی میعاد میں اس نعرہ سے فائدہ مخصوص طبقات اور حکومت سے قربت رکھنے والے صنعت کاروں کو ہوا جو بینکوں کو ہزاروں کروڑ کا چونا لگاکر ملک سے فرار ہوگئے۔ حکومت اگر شاندار کارکردگی کیلئے عوام سے اظہار تشکر کرنا چاہتی ہے تو اسے عوام کے بنیادی مسائل اور انتخابی وعدوں کی تکمیل پر توجہ دینی چاہئے ۔ بجائے اس کے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ چھیڑ خانی کی جائے ۔ مسلمانوں کا اہم مسئلہ تعلیم اور روزگار ہے۔ اس جانب توجہ دینے کے بجائے کب تک جذباتی مسائل میں الجھاکر پسماندگی میں اضافہ کیا جائے گا ۔ اس صورتحال کے لئے مسلمان اور ان کی قیادت کے موجودہ دعویدار بھی برابر کے ذمہ دار ہے۔ مخالف اسلام اور مخالف شریعت فیصلوں اور قوانین کو روکنے کے لئے جدوجہد نہیں کی گئی اور نہ ہی جامع حکمت عملی تیار کی گئی ۔ مسلمانوں کو اس خول سے نکلنا ہوگا کہ وہ ملک میں اقلیت میں ہے ، لہذا کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ تصور دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس پیدا کردے گا ۔ اسی احساس کمتری کا جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ مسلمان ملک میں سب سے بڑی اقلیت سے زیادہ اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ وہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لفظ اقلیت کو جوڑ کر ان میں احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جدوجہد کے راستہ کو بھول کر حکومتوں کی مہربانیوں پر انحصار کرنے لگے۔ بے حسی کا فائدہ اٹھاکر شریعت کے معاملہ حکومت بار بار مداخلت کی ہمت کر رہی ہے۔ قیادت میں دم ہے نہ مسلمانوں میں حوصلہ۔ قائدین اور علماء جلسوں اور اجلاسوں تک محدود ہوچکے ہیں۔ جمہوری انداز میں احتجاج کیلئے کوئی تیار نہیں۔ جس طرح شاہ بانو کیس میں ملی حمیت اور دین سے اٹوٹ وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو دستور میں تبدیلی کیلئے مجبور کیا گیا تھا ، آج اسی جذبہ کی ضرورت ہے۔ طلاق ثلاثہ آج نشانہ پر ہے تو کل نان نفقہ اور وراثت کے معاملات میں مداخلت کی جائے گی۔ بی جے پی کو شریعت میں مداخلت سے روکنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ 2021 ء میں راجیہ سبھا میں اسے اکثریت حاصل ہوجائے گی جس کے بعد کسی بھی قانون کو بآسانی منظور کیا جاسکتا ہے اور ہم صرف افسوس کے سواء کچھ نہیں کرپائیں گے۔

کسی بھی مسئلہ کو سیاسی رنگ دے کر فائدہ حاصل کرنا کوئی نریندر مودی سے سیکھیں۔ شنگھائی آپریشن آرگنائزیشن (SCO) سمٹ میں شرکت کیلئے نریندر مودی کرغستان گئے ۔ اس سمٹ میں دیگر ممالک کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کسی عالمی کانفرنس میں مودی کی یہ پہلی شرکت کی ہے۔ اگر وہ خاموشی سے جاتے تو میڈیا میں کوئی خاص تشہیر نہ ہوتی ۔ لہذا پھر ایک بار پاکستان کو تنازعہ میں گھسیٹا گیا تاکہ ووٹ بینک محفوظ اور مطمئن رہے۔ روانگی سے قبل ہندوستان نے پاکستان سے وزیراعظم کے طیارہ کیلئے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت طلب کی ۔ پاکستان نے اصولی طورپر اتفاق کرتے ہوئے وزیراعظم کے طیارہ کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی ۔ معاملہ یہیں تک ختم نہیں ہوا بلکہ روانگی سے عین قبل ہندوستان نے اعلان کر دیا کہ وہ پاکستان کا احسان لینا نہیں چاہتا۔ لہذا دیگر ممالک کے طویل راستہ سے وزیراعظم روانہ ہوئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کا احسان لینا ہی نہیں تھا تو پھر اجازت کیوں طلب کی گئی؟ دراصل حکومت کو اندیشہ تھا کہ موجودہ کشیدہ ماحول میں پاکستان فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہیں دے گا ۔ ایسی صورت میں ہندوستان کو پاکستان پر انگلی اٹھانے کا ایک موقع مل سکتا تھا لیکن پاکستان نے بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کے طیارہ کو گزرنے کی اجازت دے دی ۔ پھر کیا تھا کہ بی جے پی کو کسی نہ کسی بہانے کی تلاش تھی اور آخرکار لمحہ آخر میں احسان نہ لینے کی بات کرتے ہوئے مودی طویل راستہ سے کرغستان کیلئے روانہ ہوگئے ۔ اجازت دینے پر سیاست اور پھر خود سفر سے انکار کرتے ہوئے دہری سیاست کی گئی ۔ ہر معاملہ میں سیاسی فائدے کو ملحوظ رکھنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ نریندر مودی نے مالدیپ اور سری لنکا کا دورہ کیا لیکن عمران خاں کی جانب سے تعلقات بہتر بنانے کے مکتوب پر مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ہندوستان کو جاننا چاہئے کہ سرحدیں اور پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ پڑوسیوں سے بہتر روابط اور باہمی تعاون دونوں کے حق میں رہے گا۔ دونوں ممالک کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ یہی نریندر مودی اپنی پہلی میعاد میں نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دینے بن بلائے مہمان کی طرح پاکستان گئے تھے۔ اس وقت نواز شریف کی ضیافت قبول کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے احسان کا خیال نہیں آیا۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی صدر کے بغیر ہی کام کر رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد راہول گاندھی نے استعفی پیش کردیا تھا ۔ ورکنگ کمیٹی کی جانب سے استعفی کو نامنظور کئے جانے کے باوجود راہول گاندھی اپنے فیصلہ پر اٹل ہیں۔ کیا راہول گاندھی پارٹی شکست سے دلبرداشتہ ہیں یا پھر وہ قائدین سے ناراض ہیں، جنہوں نے پارٹی کی کامیابی سے زیادہ اپنے بچوں کی کامیابی پر توجہ دی۔ کانگریس کور کمیٹی ارکان کے اجلاس سے سونیا گاندھی اور راہول گاندھی غیر حاضر رہے ۔ اس طرح کانگریس میں غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کانگریس کی قیادت گاندھی خاندان کے فرد کے ہاتھ میں محفوظ رہ سکتی ہے۔ غیر گاندھی خاندان کے صدر کو پارٹی میں متحدہ طور پر تائید حاصل نہیں ہوسکتی۔ سابق میں ایسے تجربات موجود ہیں۔ اب جبکہ بعض ریاستوں میں انتخابات قریب ہیں، راہول گاندھی کو اپنے استعفی کے بارے میں جلد فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ پارٹی بے سمتی کا شکار ہوجائے گی ۔ یو پی اے کے 10 سالہ دور حکومت میں جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم تھے ، اس وقت سونیا گاندھی درپردہ وزیراعظم کی طرح طاقتور تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 5 سال اقتدار سے محرومی کے باوجود کانگریس قائدین خود کو اپوزیشن میں قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 5 سال کے بعد لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کا مظاہرہ بہتر نہیں ہوا ۔ کانگریس کے کمزور مظاہرہ کے نتیجہ میں اپوزیشن کے اتحاد کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اترپردیش میں ایس پی اور بی ایس پی اتحاد عملاً انتشار کا شکار ہوچکا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد مغربی بنگال بی جے پی کا پہلا نشانہ دکھائی دے رہا ہے۔ بنگال کی صورتحال صدر راج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امن و ضبط کی صورتحال کو مودی میڈیا جس طرح ابتر پیش کر رہا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیت شاہ نے صدر راج کے نفاذ کا اسکیچ تیار کرلیا ہے۔ ضابطہ کی تکمیل کے طورپر گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی سے رپورٹ طلب کی گئی ۔ انتخابی مہم سے لے کر آج تک مغربی بنگال میں تشدد کے واقعات تھمتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ بی جے پی کسی نہ کسی عنوان سے تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ صدر راج کے نفاذ کے ذریعہ ممتا بنرجی پر مقدمات درج کئے جائیں گے اور انہیں گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ لتا حیاء نے کچھ اس طرح حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہے ؎
ستمگروں کی اگر بھیڑ ہے تو ہونے دو
جو اہل حق ہیں وہ تعداد سے نہیں ڈرتے