جو ہونے والا ہے وہ حادثہ دِکھائی تو دے

   

بابری مسجد مقدمہ ۔8 ایام کار میں 5 اہم فیصلے
کشمیر آخر ٹوٹ گیا ۔ کشمیری قید ، غیرملکی آزاد

رشید الدین

بابری مسجد اراضی ملکیت مقدمہ کا فیصلہ کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ قوم کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا بے چینی سے انتظار ہے۔ نومبر کے آغاز کے ساتھ ہی فیصلے کی الٹتی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی 17 نومبر کو وظیفہ پر سبکدوشی سے قبل انہیں کئی اہم مقدمات کا فیصلہ سنانا ہے۔ 17 نومبر تک سپریم کورٹ کے صرف 8 ایام کار ہیں اور انہیں ایام میں بابری مسجد ملکیت اراضی کے علاوہ کیرلا کے سبری مالا مندر میں خواتین کو داخلے کی اجازت اور راہول گاندھی کے خلاف توہین عدالت کے ایک مقدمہ میں فیصلہ باقی ہے۔ کس مقدمہ کا فیصلہ کب آئے گا، یہ تو فیصلہ کی تیاری پر منحصر ہے لیکن تمام فیصلوں کو 8 ایام کار میں صادر کرنا ہوگا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کی نظریں سپریم کورٹ پر ٹکی ہیں۔ دنیا یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ عظیم تر جمہوریت میں اعلیٰ ترین عدلیہ کس حد تک آزاد اور غیرجانبدار ہے۔ اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس اور دیگر ججس فیصلے کی تیاری میں منہمک ہیں۔ اتوار کی تعطیل کے باوجود رات دیر گئے تک ججس مصروف دکھائی دیئے۔ اراضی ملکیت پر الہ آباد ہائیکورٹ کے 2010ء کے فیصلے کے 9 سال بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ منظر عام پر آئے گا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسے وقت منظر عام پر آرہا ہے جبکہ مسجد کی شہادت سے آج تک ایک نئی نسل تیار ہوچکی ہے۔ مسجد کی شہادت کو 27 سال مکمل ہونے کو ہیں لہٰذا عدالت کے فیصلے پر کوئی ایسا ردعمل نہ ہو جو نئی نسل کے مستقبل پر اثرانداز ہونے پائے۔ ہر فریق کی بلکہ یہ حکومت اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ ملک کو نفرت اور فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے نہ دیں۔ نوجوان نسل کے تابناک مستقبل کا تحفظ ہر کسی کی ذمہ داری ہے۔ اس نازک موڑ پر ہماری ذرا سی لغزش قوم و ملک کے ساتھ بدخدمتی ہوگی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ’’من کی بات‘‘ پروگرام میں عوام سے اپیل کی کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صبر و تحمل سے کام لیں۔ یقینا وزیراعظم کا بیان خوش آئند اور بروقت ہے اور ہر کسی کو ملک کی روایات اور تہذیب کی پاسداری کرنی چاہئے۔ کاش! وزیراعظم سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل اس طرح کی اپیل جاری کرنے کے بجائے بہت پہلے سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے عناصر کو اشتعال انگیز بیان بازی سے روکتے۔ سنگھ پریوار کی بیان بازی سماج میں کشیدگی کا سبب بن رہی ہے اور وہ اقلیتوں میں خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ فیصلے کے بعد ملک بھر میں امن و ضبط کی صورتحال کی برقراری اور بالخصوص اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا مرکز اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ ملک کا مفاد بھی روایتی مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری میں ہے۔ جس طرح الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد قوم نے پرامن اور فرقہ وارانہ ماحول کو برقرار رکھا تھا، اُمید ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہی ماحول برقرار رہے گا۔ ہمارا کوئی بھی جذباتی قدم بھلے وہ کسی فریق کی جانب سے کیوں نہ ہو، ملک و قوم کے مجموعی مفاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

جنت ارضی ’’کشمیر‘‘ کو آخرکار نفرت اور عصبیت کی نظر لگ گئی۔ دفعہ 370 کی برخاستگی کے فیصلے پر عمل آوری کرتے ہوئے کشمیر کا ریاست کا موقف ختم کردیا گیا اور دو مرکزی زیرانتظام علاقے وجود میں آگئے۔ آخر کشمیریوں کا قصور کیا تھا، ان کی تمام خوشیاں غائبانہ چھین لی گئیں۔ 370 کی برخاستگی سے قبل کشمیریوں سے پوچھا تک نہیں گیا کہ آخر ان کی رائے کیا ہے۔ سزائے موت کے مجرم کی آخری خواہش کا احترام کیا جاتا ہے لیکن یہاں 70 سال سے جاری خصوصی موقف کو ایک جنبش قلم سے ختم کردیا گیا اور کشمیریوں کی رائے نہیں پوچھی گئی۔ کشمیریوں کے جذبات کو ظالم و جابر حکمرانوں نے پیروں تلے روند دیا۔ 370 کی برخاستگی کے ذریعہ دستوری و قانونی شرائط کی تکمیل تک نہیں کی گئی۔ اسمبلی سے رائے حاصل کئے بغیر اکثریت کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی منظوری دی گئی۔ آخر یکطرفہ فیصلے کا حق کس نے دیا تھا۔ دراصل جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کھٹک رہی تھی جس کی سرکاری زبان ’’اردو‘‘ تھی، اب اردو کی جگہ ’’ہندی‘‘ کو مسلط کردیا گیا ہے۔ یوں تو 370 کی برخاستگی بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل تھی لیکن اٹل بہاری واجپائی حکومت نے یہ ہمت نہیں کی۔ وہ جانتے تھے کہ 370 کی برخاستگی کشمیری عوام کے ساتھ حق تلفی ہوگی اور اس فیصلے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ 2014ء میں مودی۔ امیت شاہ جوڑی کو جیسے ہی مرکز میں غلبہ حاصل ہوا، فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ یوں بھی سنگھ پریوار کیلئے مسلمان ہمیشہ آسان نشانہ رہے ہیں۔ اگر مودی حکومت میں ہمت ہو تو نارتھ ایسٹ ریاستوں کا خصوصی موقف ختم کرکے دکھائیں جہاں 371 کے تحت کشمیر کی طرح خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ وہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے کیونکہ وہ مسلم اکثریتی ریاستیں نہیں ہیں۔ تکلیف تو اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔ ان دنوں منی پور، ناگالینڈ اور دوسرے علاقوں میں قبائیلیوں نے مرکز کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ مرکز کو بار بار یہ وضاحت کرنی پڑ رہی ہے کہ نارتھ ایسٹ میں خصوصی موقف ختم نہیں کیا جائے گا۔ ناگا اور دوسرے باغیوں نے ہندوستان کے ترنگے کے علاوہ اپنا علیحدہ پرچم تیار کیا ہے لیکن امیت شاہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ نارتھ ایسٹ ریاستوں کو چھوڑیئے، ملک کی دوسری ریاستوں بشمول تلنگانہ میں آج بھی قبائیلیوں کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ تلنگانہ کے دو اضلاع ایسے ہیں جہاں 100 سال گذر جانے کے باوجود آج تک غیرقبائیلی کو اراضی کی خریدی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ قبائیلیوں کے نام پر خریدی اور تعمیری سرگرمیوں کے ذریعہ لوگ فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں قبائیلیوں کو خصوصی اختیارات اور مراعات حاصل ہیں تو پھر کشمیریوں کا کیا قصور تھا۔ ان کی تجارت اور جائیداد کی ملکیت کے اختیارات کیونکر چھین لئے گئے۔ غلام نبی آزاد جو کشمیر کے حقیقی نمائندہ اور فرزند ہیں، انہوں نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ کشمیر جہاں کبھی بادشاہ اور وزیراعظم ہوا کرتے تھے، اسے آزادی کے بعد جمہوریت ڈھانچہ میں تبدیل کرتے ہوئے گورنر اور چیف منسٹر کے تحت کیا گیا تھا لیکن افسوس آج اس درجہ کو فرقہ پرست طاقتوں نے برداشت نہیں کیا اور کشمیر کو لیفٹننٹ گورنر کے معمولی عہدہ تک پہنچا دیا گیا۔ آخر یہ کشمیریوں کی توہین نہیں تو کیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کشمیریوں پر یکے بعد دیگرے مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن حکومت کی زبان پر ’’کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت‘‘ کا نعرہ برقرار ہے۔ حکومت کے اقدامات اس نعرے کے بالکل برعکس ہیں۔ مودی حکومت نے نہ ہی کشمیریت کا احترام کیا اور نہ 370 کی برخاستگی کے سلسلے میں جمہوری اصولوں کو اختیار کیا۔ اتنا ہی نہیں کشمیری عوام کو بنیادی ضرورتوں سے محروم کرتے ہوئے انسانی حقوق کو پامال کردیا ہے۔ 370 کی برخاستگی کے فیصلے کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ گذر گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تک مرکزی حکومت کو کشمیر میں رابطے کیلئے کوئی معتبر چہرہ دستیاب نہیں ہے۔ ایک مرکزی وزیر جنہیں کشمیر امور کی ذمہ داری دی گئی ہے، نے اپنے قریبی احباب میں کھل کر اس بات کا اعتراف کیا کہ گزشتہ تین ماہ میں کشمیر میں ایک بھی معتبر ذریعہ دستیاب نہیں ہوا جس کے ذریعہ حالات کا صحیح اندازہ کیا جاسکے۔ انہوں نے کشمیر کے کئی گروپس سے ربط قائم کرتے ہوئے نظم و نسق کے قیام میں تعاون کی اپیل کی لیکن کوئی بھی گروپ ان سے ملاقات کیلئے تیار نہیں تھا۔ مرکز اور جموں و کشمیر کے فوج، انٹلیجنس اور پولیس کے عہدیداروں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ 370 کی برخاستگی کے بعد صورتحال کو قابو میں کرنا آسان نہیں ہے۔ وادی کے بیشتر علاقوں میں صورتحال بے قابو ہوچکی ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں مخالف ہندوستان جذبات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ ان حالات میں کشمیر کے دولت مند افراد نقل مقام کا فیصلہ کرچکے ہیں تاکہ ملک کے دیگر حصوں میں اپنے کاروبار کے ساتھ سکونت اختیار کرلیں۔ تاجروں اور دولت مند افراد کا تیزی سے نقل مقام اس بات کا ثبوت ہے کہ وادی میں حالات سب کچھ ٹھیک نہیں۔ ایک طرف کشمیریوں کو قید میں رکھا گیا تو دوسری طرف یوروپی یونین کے ارکان پارلیمنٹ کو دورۂ کشمیر کی اجازت دی گئی۔ یہ ارکان پارلیمنٹ ایک این جی او کے ذریعہ وزیراعظم تک پہنچ گئے اور وزیراعظم کو اس لئے وہ بہا گئے کیونکہ ارکان پارلیمنٹ کا تعلق دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے اور جو ہٹلر اور نازی ازم کی وراثت پر ناز کرتے ہیں۔ مودی کو مخالف اسلام اور مخالف مسلم طاقتوں کی پذیرائی کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے لہذا انہیں دو دن کے دورہ کی اجازت دے دی گئی۔ وفد میں شامل چار ارکان دورہ سے قبل ہی وطن واپس لوٹ گئے کیونکہ وہ آزادانہ طور پر صورتحال کا جائزہ لینا چاہتے تھے، انہیں فوج اور پولیس کے بغیر دورہ کی اجازت درکار تھی۔ 4 اگست سے کشمیریوں نے خود کو محروس کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کرایا، لیکن یوروپی یونین کے ارکان پارلیمنٹ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ صورتحال قابو میں ہے۔ حکومت نے بھلے ہی کچھ اور منصوبہ بنایا تھا لیکن ’’الٹی پڑ گئی ساری تدبیریں ‘‘ کے مصداق ارکان پارلیمنٹ نے وادی کی جو حالت دیکھی تو ان کی زبان سے بے ساختہ نکل پڑا کہ صورتحال شام اور افغانستان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ جملہ خود صورتحال کی سنگینی کا بخوبی اظہار ہے۔ حکومت کی حلیف شیوسینا نے بھی یوروپی یونین کے دورہ کو ملک کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ پر بیرونی حملہ سے تعبیر کیا۔ اب جبکہ مودی حکومت کو یوروپی یونین ارکان سے تلخ تجربہ ہوچکا ہے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آئندہ امریکی کانگریس یا انسانی حقوق کی تنظیموں کو دورہ کی اجازت دی جائے۔ ہندوستانی عوام کو کشمیر میں داخلے کی اجازت نہیں ، وہاں کے قائدین اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کیلئے سپریم کورٹ کی اجازت حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ معراج فیض آبادی کا یہ شعرحالات پر صادق آتا ہے :
جو ہونے والا ہے وہ حادثہ دکھائی تو دے
کوئی چراغ جلاؤ ، ہوا دکھائی تو دے