جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو

   

کورونا شعور بیداری… جب چڑیاں چک گئیں کھیت
تبلیغی جماعت … گودی میڈیا کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

رشیدالدین
’’اب پچھتانے سے کیا فائدہ جب چڑیاں چک گئیں کھیت‘‘ وزیراعظم نریندر مودی پر یہ محاورہ صادق آتا ہے ۔ مودی نے کورونا وائرس کی تباہی سے بچاؤ کے لئے ٹوئیٹر پر شعور بیداری مہم کا آغاز کیا۔ مودی کی اس مہم پرہنسیں یا پھر ماتم کریں کیونکہ لڑائی کے بعد گھونسے کا خیال آنے کی طرح کورونا کی تباہی کے بعد شعور بیداری کا خیال آیا۔ اسے عوام کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ایسے حکمراں مسلط ہوچکے ہیں جو دور اندیشی سے محروم ہیں۔ جس وقت احتیاط اور شعور بیداری کا کام کرنا تھا، اس وقت تو حکومت کھیل تماشے کرتی رہی۔ اب جبکہ کورونا کے قہر سے ہندوستان دنیا میں دوسرے مقام پر پہنچ چکا ہے، حکومت نے نیا ڈرامہ کیا ہے ۔ ویسے بھی ہر واقعہ کو چاہے خوشی ہو کہ غم مودی اسے ایونٹ بنانے کے ماہر ہیں۔ من کی بات پروگرام سے عوام کی بیزارگی دیکھتے ہوئے مودی نے سستی شہرت کا نیا حربہ اختیار کیا جس کے لئے سوشیل میڈیا کے پلیٹ فارم ٹوئیٹر کا سہارا لیا ہے ۔ عوام تک پہنچنے اور ہمدردی حاصل کرنے کیلئے کورونا سے بہتر کوئی اور موضوع نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ ہر کس و ناکس کورونا سے خوفزدہ ہے۔ مودی کو عوام کی بھلائی سے زیادہ پبلسٹی کی فکر ہے۔ لہذا انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ شعور بیداری مہم کا وقت گزرگیا۔ اب شعور بیداری نہیں بلکہ علاج کی ضرورت ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ڈاکٹر مرض کے سنگین نوعیت اختیار کرنے کے باوجود علاج شروع کرنے کے بجائے مریض کو مرض کے مضر اثرات پر لکچر دے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ڈاکٹر کے ذہنی توازن کے بارے میں عوام میں شبہات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ کچھ یہی حال وزیراعظم کا ہے۔ کورونا سے ہونے والی تباہی ہوچکی اور اب تو عوام کورونا کے دوسرے دور کے اندیشوں کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔ ایسے میں شعور بیداری کی بات کرنا عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ۔ عوامی زندگی کے تحفظ کے بارے میں حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ کھلا ثبوت ہے۔ جس وقت شعور بیدار کرنا تھا ، اس وقت تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا گجرات میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں استقبال کیا گیا۔ حالانکہ کورونا نے ہندوستان میں قدم جمالئے تھے۔ اتنا ہی نہیں پارلیمنٹ کا سیشن بھی لاک ڈاؤن کی صورتحال آنے تک جاری رہا۔ کورونا سے حکومت اس قدر بے نیاز ہوچکی تھی کہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن ارکان نے ماسک لگاکر حکومت کو کورونا کے خطرہ سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو نے راجیہ سبھا کے صدرنشین کی حیثیت سے ارکان کو ماسک نکالنے کی ہدایت دی اور ایوان سے معطل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی لیکن افسوس کہ وینکیا نائیڈو خود کورونا کا شکار ہوئے اور ان دنوں ہوم آئسولیشن میں ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ کی عاجلانہ صحت یابی کی نیک تمناؤں کے ساتھ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ کورونا کے خطرہ سے حکومت کس حد تک بے پرواہ تھی۔ مودی نے بے وقت کی راگنی کی طرح ایسے وقت شعور بیداری مہم کا آغاز کیا کہ ملک کا ہر شہری کورونا کے خطرات سے باشعور ہی نہیں بلکہ ابتدائی علامات کی صورت میں گھر پر علاج کے طریقہ کار سے بھی واقف ہے۔ ملک میں کورونا کیسس 68 لاکھ تک پہنچ چکے ہیں اور اموات ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔

روزانہ 70,000 تا 1,00,000 نئے کیسس منظر عام پر آرہے ہیں اور روزانہ کی اموات 800 تا 1000 ہیں ۔ اس قدر تباہی اور سنگین صورتحال میں علاج پر توجہ دینے کے بجائے شعور بیداری کی بات کرنا مضحکہ خیز ہے۔ مرکز ہو یا ریاستی حکومتیں عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ جتنی تباہی ہونا تھا ہوچکی، اب ضرورت غریب اور متوسط طبقات کیلئے سرکاری سطح پر بہتر علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کی ہے۔ یہاں تو کورونا علاج کیلئے کارپوریٹ ہاسپٹلس انسانی سلاٹر ہاؤزس میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ لاکھوں روپئے کی ادائیگی سے قاصر غریب گھرانے اپنے قریبی افراد کی موت کا بے بسی سے نظارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ شعور بیداری کے تحت ماسک کا استعمال ، سماجی فاصلہ اور ہاتھوں کی صفائی کی تاکید کی جائے گی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت نے ان لاک کے 5 مرحلوں کے تحت تمام تر سرگرمیوں کو بحال کردیا۔ پھر کس منہ سے احتیاط کی بات کی جارہی ہے ۔ معاشی ، تجارتی ، مذہبی ، تہذیبی اور تفریحی سرگرمیوں کو کھول دیا گیا ۔ شراب خانے ، تھیٹرس ، پارکس اور دیگر تفریحی مقامات کو کھولنے کا فیصلہ دراصل شعور بیداری مہم کے بالکل برعکس ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جب انسان کو کوئی کام نہ ہو تو ایسے ہی لا یعنی کام کرنے لگتا ہے ۔ مودی کا دل عوام کی خدمت کے کاموں میں نہیں لگ رہا ہے ، لہذا سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر تشہیر کا نیا تجربہ کیا گیا ۔ کورونا کے دوسرے دور کا خطرہ ابھی برقرار ہے تو پھر ان لاک کے دھڑا دھڑ پانچ مراحل کی کیا ضرورت تھی ۔ تجارتی ، تفریحی اور دیگر سرگرمیوں کو بحال کرتے ہوئے ماسک کے استعمال ، سماجی فاصلہ اور ہاتھوںکی صفائی کا تصور ختم کرنے کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ آخر کس بات کی مہم اور اس کا کیا اثر ہونے والا ہے ؟ مرنے والے مر رہے ہیں اور لاکھوں خاندان پریشان ہیں لیکن نریندر مودی کو سوشیل میڈیا پر اپنی شخصی
TRP
میں اضافہ سے دلچسپی ہے۔ کورونا سے عوام کو بچانے کی اتنی ہی فکر ہے تو پھر بہار اسمبلی انتخابات کیوں کرائے جارہے ہیں۔ لاکھوں افراد کی زندگی جوکھم میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ عوامی زندگی سے بڑھ کر الیکشن ہو نہیں سکتا۔ بہار اسمبلی کے علاوہ تمام ضمنی چناؤ اور مجالس مقامی کے انتخابات بھی ملتوی کئے جائیں۔ جب احتیاط ضروری ہے تو پھر رام مندر کے بھومی پوجن اور ہماچل پردیش میں اٹل بہاری واجپائی کے نام سے موسوم ٹنل کے افتتاح کے لئے شخصی طور پر وزیراعظم کیوں گئے؟ احتیاطی تدابیر کے بارے میں جس وقت شعور بیدار کرنا تھا، اس وقت تو موم بتی جلاکر ، کبھی سٹی ، کبھی تالی تو کبھی تھالی بجاکر کورونا کو بھگانے کی کوشش کی گئی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کورونا کوئی بھوت یا شیطان ہے جسے جیوتشی اور عاملوں کے عملیات کی طرح ’’گو کورونا گو‘‘ کہہ کر بھگانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ ان تمام ٹوٹکوں سے کورونا بھاگا نہیں الٹا اس نے سارے ملک میں پیر پھیلا دیئے ۔ لاک ڈاون کے آغاز سے نریندر مودی نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا اور وہ وزیراعظم سے زیادہ کسی آشرم کے مہنت یا سوامی دکھائی دے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مودی نے کورونا کے خاتمہ تک حلیہ تبدیل نہ کرنے کی منت کی ہو۔

کورونا کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششوں پر آخرکار سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گودی میڈیا کو پھٹکار لگائی ۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی سرزنش کی کہ وہ گودی میڈیا پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ۔ کورونا کے لئے تبلیغی جماعت کا سہارا لے کر ملک بھر میں مسلمانوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ گودی میڈیا کے چیانلس پر جاری چیخ پکار اور مباحث سے محسوس ہورہا تھا جیسے نئی دہلی کے تبلیغی مرکز میں کورونا وائرس تیار کیا گیا ہے اور وہیں سے سارے ملک میں پھیلا دیا گیا ۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا بلکہ آج بھی دبے الفاظ میں گودی میڈیا مسلمانوں پر انگشت نمائی کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مرکز میں جس نظریات کی حامل حکومت ہوگی ، گودی میڈیا اسے نظریہ کی تشہیر کرے گا۔ بی جے پی حکومت کا ایجنڈہ مخالف اسلام اور مخالف مسلمان ہے ، لہذا گودی میڈیا کو زہر اگلنے کی کھلی اجازت دے دی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عدلیہ بحیثیت مجموعی آزاد ہے اور ججس کی اکثریت سچائی اور جھوٹ میں تمیز کرتے ہوئے حکومت کو للکارنے کی طاقت رکھتی ہے۔ عدالت نے کورونا کی وجوہات سے متعلق جھوٹ کا پول کھول دیا اور واضح کردیا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف جھوٹ پر مبنی مہم چلائی گئی تھی۔ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر میڈیا نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ کورونا کے نام پر مسلم مذہبی رہنماؤں کی توہین کی گئی اور نفرت کا کچھ ایسا ماحول تیار کیا گیا کہ ہندوستان کے کئی علاقوں میں مسلم تاجروں کا بائیکاٹ کیا گیا ۔ دراصل حکومت خود چاہتی تھی کہ کورونا کا ٹوکرا مسلمانوں کے سر پھوڑ دیا جائے۔ مودی کے مشیروں میں آج بھی اکثریت مخالف مسلم ذہنیت رکھنے والوں کی ہے جس کا اظہار وقفہ وقفہ سے ہوجاتا ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو کلین چٹ دے دی ہے، لہذا دوبارہ انگلی اٹھانے والے افراد اور میڈیا کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج ہونا چاہئے ۔ مسلمانوں کے خلاف کورونا کے سلسلہ میں عائد تمام مقدمات سے دستبرداری اختیار کی جائے۔ جاوید اختر نے ملک کے حالات پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو