حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہؒ ڈاکٹر بی بی خاشعہ

   

عبادت و ریاضت اور مناجات تو ہر صوفی زاہد اور متقی کے بنیادی اوصاف میں شامل ہے لیکن یہ زاہد شب زندہ دار دن بھر تجارت، تبلیغ اور تعلیم و تدریس کی بھاری ذمہ داریاں بھی نبھاتا تھا۔ تعلیم و تدریس بھی ایسی کہ قدرت اس سے ہزاروں ایسے تلامذہ کو تیار کروا رہی تھی جو ہر سو پھیلتے ہوئے مسلمانوں کے لئے قرآن وحدیث کی نصوص کو سامنے رکھ کر روزمرہ کے مسائل کا قابل عمل حل پیش کر سکیں۔ گویا ظہور قدسی کے ساتھ جو وحی اُترنا شروع ہوئی اور ۲۳ سال تک اُترتی رہی پھر اس قرآن ناطق تاجدار کائنات ﷺ نے جو جو تشریحات اور تعبیرات ارشاد فرمائیں، آپ ﷺ کے الفاظ مبارکہ اور آپ ﷺ کی حکمت طیبہ دونوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ایسے اصول وضوابط کی تعیین و تدوین ہو رہی تھی جو آئندہ صدیوں تک قصر اسلام کی حفاظت و تمکنت کی ضامن تھی ۔ اس حساس، بھاری اور اہم ترین ذمہ داری سے عہدہ برائی کیلئے قدرت نے امام ابوحنیفہ ؒکا انتخاب کیا تھا ۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اسلامی فقہ کی تدوین اول امام صاحب نے فرمائی بلکہ خود امام شافعیؒ جیسے مجتہد، محدث نے بھی فرمایا: ”قیامت تک جو شخص بھی دین کی سمجھ حاصل کرنا چاہے گا وہ ابو حنیفہ کے فیضان علم کا محتاج ہوگا ۔“
سیدنا امام الائمہ، سراج الامہ، رئیس الفقہاء، محدثِ کبیر، حافظِ حدیث، امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی (و:۸۰ھ ۔ م:۱۵۰ھ) رحمہ اللہ علم و عمل، زہد و تقویٰ، ریاضت وعبادت اور فہم و فراست کی طرح، آپ کی شانِ محدثیت، حدیث دانی اور حدیث بیانی بھی، اہل ایمان میں مسلم اور ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ امام صاحب کی علم حدیث میں مہارت معلوم کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ، نصابِ تعلیم اور اساتذہ کا تجزیہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، امام صاحب کی تبحر حدیث میں، اس کا بھی دخل ہے کہ آپ کی اولیں درس گاہ ”کوفہ“ ہے جس کے سرپرست اعلیٰ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور صدر مدرس حضرت عبداللہ بن مسعودتھے، واضح رہے کہ یہ ”کوفہ“ ان حضرات کے ورود مسعود سے پہلے بھی علم حدیث کا شہر تھا ۔امام صاحب کی تحصیل حدیث کی دوسری بڑی درسگاہ ”بصرہ“ ہے جو حسن بصری ؒ شعبہؒ ،قتادہؓ کے فیض تعلیم سے مالا مال تھا۔ چوں کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ”حج“ استفادے اور افادے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا؛ اس لیے تکمیل حدیث کے لیے علوم شرعیہ کے اصل مرکز حرمین شریفین کا سفر کیا اور پچپن حج کیے۔ سب سے پہلا حج سولہ سال کی عمر میں والد صاحب کی معیت میں ۹۶ھ میں کیا، اس سفر میں صحابی رسول حضرت عبداللہ بن الحارثؓ سے ملاقات کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور ان کی زبان مبارک سے یہ ارشاد بھی سنا: من تفقہ فی دین اللّٰہ، کفاہ اللّٰہ ہمہ ورزقہ من حیث لا یحتسب “(جامع علم البیان، بہ حوالہ: دفاع امام ابوحنیفہ)اسی وجہ سے باتفاق ائمہ محدثین آپ تابعی ہیں، لہٰذا آپ اللہ کے قول: ”وَالَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْهُـمْ بِاِحْسَانٍۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ“ میں داخل ہیں؛کیوں کہ حج کے مسلسل سفروں میں حضراتِ صحابہؓ سے استفادے کا موقع ملا؛ اسی کے ساتھ ساتھ آپ کو حج کے سفروں میں تدریس کے مواقع بھی فراہم ہوئے، جہاں لوگ آپ سے فیض حاصل کرنے کیلئے ٹوٹ پڑتے تھے؛ اسی وجہ سے آپ کے شاگردوں کی تعداد، حد شمار سے باہر ہے، جب کہ آپ کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد چارہزار تک ہے۔ (صدرالائمہ) امام صاحبؒکے حدیث کے ساتھ والہانہ لگاؤ ہی کے سبب، آپ کا بیان فرمودہ ہر مسئلہ، قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ اسی مہارتِ حدیث کی وجہ سے کبار محدثین نے آپ کے بیان کردہ مسائل و فتاویٰ کے سامنے،اپنا سر تسلیم خم کردیا۔