حضرت سید محمد شیخین احمد شطاری ؒ کامل

   

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حضرت شیخین احمد شطاری کامل علیہ الرحمۃ الرضوان دکن مشاہیر علماء و مشائخ خاندان سادات حسینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ 23 صفر 1323ھ محلہ دبیرپورہ حیدرآباد دکن میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کی تحصیل والد بزرگوار سے گھر پر ہی کی۔ پروفیسر الواسع، مولانا سید عبدالباقی، مولانا کاملؔ کے خاص اساتذہ رہے۔ بیک وقت مدیر، مفکر، پیر طریقت، بے لوث رہنما تھے۔ آپ کا مجموعہ کلام واردات کاملؔ قبولیت خاطر اور لطیف سخن کا آئینہ ہے۔ حضرت کاملؔ کا کلام اپنی جداگانہ شان اور انفرادیت رکھتا ہے۔ حضرت کاملؔ کے کلام میں تصوف کے جواہر پاروں کی جو فراوانی ہے، وہ روحانیات کے فیوض کا عکس جمیل ہیں۔ حضرت کامل کے اشعار کی خصوصیت ہے کہ ان سے نہ صرف قلب و نظر کو روشنی ملتی ہے بلکہ روح کو بھی ایک نئی تازگی حاصل ہوتی ہے۔ حضرت کاملؔ نے دنیائے شاعری میں فکر و فن کے نئے چراغ روشن کئے ہیں۔ اس بات سے حیدرآباد کے علمی حلقے ضرور واقف ہیں۔ روحانیات کا شہسوار بن کر آسمان شعر و ادب کی جن بلندیوں پر پرواز کیا ہے، اسے صاحبان نظر اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔ حضرت کے اشہب فکر نے جملہ اصناف سخن بالخصوص غزل کے میدانوں میں جو جولانی دکھائی ہے، اس کا اعتراف ہر خلوص مند دل اور غوروفکر کرنے والا دماغ کرے گا۔ حضرت کاملؔ نے دریائے شعر میں ماہرانہ غواصی کے جودرشہوار نکالے ہیں، وہ یقینا زینت افزائے تاج اقلیم سخن ہوں گے۔ مشائخ حیدرآباد میں حضرت کاملؔ کی وہ شخصیت ہے جس کے کلام کو نہ صرف عوام بلکہ خواص میں بھی اس درجہ مقبول بنا دیا۔ خود حضرت کاملؔ کو بھی اپنے کلام کی مقبولیت اور اس کے سبب جو اندازہ ہوا ہے، اسی نے تو ان سے یہ شعر کہلوایا۔ کلام کاملؔ کی شہرتوں کا سبب فقط ہے، ان سے ربط و نسبت، غزل کے ہر شعر پر ہے، گہرا چڑھا ہوا رنگ عاشقانہ مولانا حضرت کاملؔ کو دربار رسالت اور بارگاہ غوثیت مآب سے جو بے پناہ عقیدت و محبت ہے، اسی نے دراصل شعر کا روپ اختیار کیا ہے۔ان کی کہی ہوئی نعتیں اور منقبتیں بھی بہت سی ہیں جن میں آداب منقبت کا پورا پورا پاس و لحاظ ہے، مگر غزل کے میدان میں ان کی والہانہ شیفتگی بڑا رنگ پیدا کردیتی ہے، الفاظ اور پیرایہ بیان غزل ہی کی طرح ہوتا ہے۔
تیرے جلوؤں کے سواء کیا ہے ، نگاہ و دل میں
تو ہی تو ہے میرے احساس کی ہر منزل میں
عام طور پر شعراء کے پاس جو مضامین ملتے ہیں، ان میں محبوب کی بے وفائی، عاشق کا محبت سے انحراف، ظلم و ستم پر فریاد و فغاں جورو جفا کا شکوہ، نسوائی، آرائش، جسمانی زیبائش کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن مولانا کاملؔ کی غزلیات ایسے مضامین سے مبراء نظر آتی ہیں کیونکہ ان کی محبت اور محبوب دونوں خاص کیفیات و صفات کے حامل ہیں، اس لئے یہاں ایک والہانہ شیفتگی اور بے نیاز آشفتگی کے مضامین ملتے ہیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
میرے غوروفکر کے زاویوں پہ ہیں ایسے پہرے لگے ہوئے
پر مجال ہے کہ ترے سواء کوئی آ تو جائے خیال میں
مولانا کاملؔ شطاری کے نعتیہ کلام کی ایک اور خاص خوبی قرآن شریف کی آیات اور حضور پاک علیہ الصلوۃ السلام کی احادیث کا برموقع، برمحل برجستہ استعمال ہے جو ان کی نعت و منقبت کے ایوان پر کرم کا شامیانہ تان دیتے ہیں اور کلام کے حسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔ یہاں چند اشعار نعت و منقبت کے درج کئے جاتے ہیں۔
سرمہ مازاغ حصہ تھا مرے سرکار کا
کس نے اتنا بے محابا جلوہ دیکھا یار کا
اون منی کی صدائیں کہہ رہی تھیں بار بار
دیدنی ہے آج منظر اشتیاق یار کا
زبان سے لاکھ کہو لا الہ الا اللہ
محبت شہہ ذیشان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اُردو کے معروف و بلند پایہ شاعر حکیم مومن خان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میںمقطع کو اپنے تخلص مومنؔ کے ذریعہ ذومعنی پرلطف اور بہت سی خوبیوں کا حامل بنا دیا ہے۔ حضرت مولانا کاملؔ کے کلام میں ایسی ہی خوبی کاملؔ تخلص کے وسیلہ سے بیسیوں مثالوں میں ملتی ہے۔ یہاں چند مقطع درج کئے جاتے ہیں۔
کاملؔ مری وحشت ہو صحرائے مدینہ ہو
اور سب کی زبان پر ہو دیوانہ محمد کا
وہ میرے ساتھ میں کامل ؔ مگر میں پا نہیں سکتا
انہیں سے ہے گلہ ان کی معیت میں جدائی کا
آپ کی ربط و نسبت کے طفیل
شہرت کاملؔ ہوئی غوث الوریٰ
ہنر میں سب ہی کاملؔ اور عیبوں میں کاملؔ ہوں
غلام ایسا کہیں کوئی نہ ہوگا غوث الوریٰ
آگے نکل گئے حد وہم و گماں سے ہم
اک دل خالی ہیں کیا دخل ہے ایمان کا
مومن کاملؔ وہی جس کی روشن بین بین
جنس ماقص کا بھی گاہک مل گیا کاملؔ مجھے
جچ گئی ہے میرے دل سی شئی نگاہ یار میں
نسبت تو ہے کسی سے ہر حال کچھ نہ کچھ