حضور اکرم ﷺکی نورانی تشریف آوری

   

ڈاکٹر فاطمہ آصف
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خاندان عرب میں ہمیشہ سے ممتاز ومعزز چلا آتا تھا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’ میں بنی آدم کے بہترین طبقات سے بھیجا گیا ہوں ‘‘۔
مسلم شریف میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو برگزیدہ بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو برگزیدہ بنایا ۔ اسی طرح ترمذی شریف میں بہ سند حسن آیا ہے کہ اللہ تعالی نے خلقت کو پیدا کیا مجھ کو ان کے سب سے اچھے گروہ میں بنایا‘ پھر قبیلوں کو چنا تو مجھ کو سب سے اچھے قبیلہ میں بنایا ‘ پس میں روح ذات اور اصل کے لحاظ سے ان سب سے اچھا ہوں ۔
حضور نبی کریم ﷺکے جد رابع کا اصلی نام مغیرہ تھا ۔ رسول اللہ ﷺ کا نور ان کی پیشانی میں اس طرح چمکا کہ لوگ انہیں وادی مکہ کا چاند کہتے۔ اسی طرح وہ نور مبارک حضرت ہاشم کی پیشانی میں بھی چمکا ‘ احبار میں سے جو بھی آپ کو دیکھتا آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ۔ حضرت ہاشم کے بعد مکہ کی ریاست آپ کے صاحبزادے حضرت مطلب کوملی ۔ جب قریش کو کوئی حادثہ پیش آتا تو حضرت عبدالمطلب کو کوہ شیبہ پر لے جاتے اور ان کے وسیلہ سے بارگاہ رب العزت میں دعاء مانگتے اور ایام قحط میں ان کے واسطے سے طلب باراں کرتے۔حضرت عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے جن میں حضرت عبداللہ نور محمد ﷺکے سبب کمال کا حسن و جمال رکھتے تھے ۔ قریش کی عورتیں ان کی طرف مائل تھیں ‘مگر اللہ تعالی نے ان کو پردہ عفت و عصمت میں محفوظ رکھا ۔ حضرت عبدالمطلب ان کیلئے ایسی عورت کی تلاش میں تھے ‘جو شرف نسب اور عفت میں ممتاز ہو ۔ وہب کی بیٹی حضرت آمنہ قریش کی تمام عورتوں سے افضل تھیں‘ حضرت عبد المطلب نے وہب کوحضرت عبداللہ کی شادی کا پیغام دیا اور عقد ہوگیا ۔جب نور محمدی ﷺ حضرت آمنہ کے رحم مبارک میں منتقل ہوا تو کئی عجائبات ظہور میں آئے ۔ حضرت آمنہ ؓنے سنا کہ کہنے والا کہہ رہا ہے ’’تیرے بطن میں جہاں کا سردار ہے ‘جب وہ پیدا ہوں تو ان کا نام محمد رکھنا ‘‘۔
تولد شریف سے ۵۵دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا ‘ جسے واقعہ اصحاب فیل کہا جاتا ہے ‘جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ۔ جب حمل شریف کو چاند کے حساب سے پورے نو مہینے ہوگئے تو حضور اقدس ﷺ ۱۲؍ربیع الاول کو دوشنبہ کے دن فجر کے وقت ابھی ستارے آسمان پر نظر آرہے تھے پیدا ہوئے۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے سر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے (جس سے آپ اپنے علو مرتبت کی طرف اشارہ فرمارہے تھے ) بدن بالکل پاکیزہ ختنہ کئے ہوئے ناف بریدہ چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح نورانی ۔ دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت درخشاں ۔ آپ کی والدہ نے آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کوجو اسوقت خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے بلا بھیجا ‘ وہ آئے اور حضور کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے بیت اللہ شریف میں لے جاکر آپ کیلئے صدق دل سے دعا کی اور اللہ تعالی کی اس نعمت عظمی کا شکریہ ادا کیا ۔ آپ کے چچا ابو لہب کی باندی ثویبہ نے ابو لہب کو تولد شریف کی خوش خبری دی تو ابولہب نے خوشی میں اپنی باندی کو آزاد کردیا ۔
اللہ تعالی نے سب سے پہلے بلا واسطہ اپنے حبیب پاک محمد مصطفے ﷺ کا نور پیدا کیا ‘پھر اسی نور کو خلق عالم کا واسطہ ٹھرایا (ترمذی شریف ) اور عالم ارواح ہی میں اس روح سراپا نور کو وصف نبوت سے سرفراز فرمادیا ۔ چنانچہ ایک روز صحابہ کرام نے حضور انور علیہ الصلوۃ و السلام سے پوچھا ’’ آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی ‘‘ تو آپ نے فرمایا ‘‘ میں اس وقت نبی تھا جب آدم علیہ السلام کی روح نے جسم سے تعلق نہ پکڑا تھا ‘‘۔ (ترمذی شریف )
اسی عہد کے سبب حضرت انبیاء سابقین علہیم السلام اپنی اپنی امتوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد و بشارت اور ان کے اتباع کی تائید فرماتے رہے ‘ پس دنیا میںحضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تشریف آوری نے تمام انبیاء سابقین علہیم السلام کی نبوتوں کی تصدیق فرمادی ۔
جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا کیا تو اپنے حبیب پاک کے نور کو ان کی پشت مبارک میں ودیعت رکھا ‘ اس نور کے انوار ان کی پیشانی میں یوں نمایاں تھے جیسے آفتاب دن میں اور چاند رات میں روشن ہوتے ہیں۔ اسی نور کی برکت سے حضرت آدم علیہ السلام ملائک کے مسجود بنے ‘اسی نور کے وسیلہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی ‘ اسی نور کی برکت سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان میں غرق ہونے سے بچی ‘اسی نور کی برکت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتش نمرود گلزار ہوگئی اور اسی نور کے طفیل سے حضرات انبیاء سابقین علہیم الصلوۃ والتسلیم پر اللہ تعالی کی عنایت بے غایت ہوئی ۔