حقیقت ِ نور محمدی ﷺ

   

پروفیسرڈاکٹر سید بدیع الدین صابری : صدر شعبۂ عربی جامعہ عثمانیہ

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ سوائے اللہ عز و جل کے کچھ نہ تھا (بخاری شریف) صرف اللہ ہی کی ذات تھی، وہ خود ہی اپنا حامد اور خود ہی محمود اور خود ہی شاہد اور خود ہی مشہود اور خود ہی محبوب اور خود ہی محب تھا۔ اللہ کی محبت کا تقاضہ ہوا کہ مرتبۂ بطون سے مرتبۂ ظہور میں آئے تو مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا اور اللہ تعالی کی اس حب پاک کا نتیجہ حبیب دوجہاں ﷺ کا نور ٹھہرا، جو تمام مخلوقات کی اصل ہے۔ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مداج النبوۃ میں نقل فرمایاکہ صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا فرمایا‘‘۔ چنانچہ اللہ کی چاہت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ساری مخلوقات ان ہی کے ذریعہ رب کو پہچانیں اور جن کی معرفت رب کی معرفت ہو اور جن کی محبت رب کی محبت ہو، اور وہ نور تمام کائنات کا مبداء قرار دیا گیا اور اسے بمنزلۂ اصل (بیج) کے بنایا گیا۔ جس طرح بیج کا فیضان درخت کے ہر ہر جزء شاخ و گل میں سرایت کیا ہوا ہے، اسی طرح بلاتشبیہ حقیقت نور محمدی ﷺ عالم کے ہر ذرے ذرے سے نمایاں ہے۔ جس طرح درخت کا ہر ایک جز تخم کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح عالم کا ہرایک ذرہ اپنے وجود میں نور محمدی ﷺ کا محتاج بنایا گیا۔ درخت کا ہر جزء اس بیج کی تفصیل ہے۔ اسی طرح تمام کائنات نور محمدی ﷺ کی تفصیل ہے۔

حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کا نور پاک تخلیق عالم سے پیشتر ایک مدت مدید تک عرش پر جگمگاتا رہا اور ذات الہی کے مشاہدہ میں مستغرق تھا۔ جب اللہ نے اس نور کو پھیلایا تو عرش و کرسی کی بے پناہ وسعتیں پیدا ہو گئیں اور چاند و سورج کی قندیلیں روشن ہو گئیں۔ عالم کا ذرہ ذرہ وجود سے ہمکنار ہوا، جیسا کہ مسند عبد الرزاق میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھ کو یہ بتائیے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اے جابر! اللہ تعالی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا، پھر وہ نور قدرت الہی سے جہاں چاہتا تھا سیر کرتا رہا اور اس وقت لوح و قلم، جنت و دوزخ، زمین و آسمان، سورج و چاند، جن و انس وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کئے، پہلے حصہ سے قلم اور دوسرے حصہ سے لوح، تیسرے حصہ سے عرش اور چوتھے حصہ کو پھر چار حصے کئے۔ پہلے حصہ سے حاملان عرش اور دوسرے سے کرسی، تیسرے سے تمام فرشتوں کو پیدا کیا اور چوتھے حصے کو پھر چار حصوں میں منقسم کیا۔ پہلے حصہ سے آسمان اور دوسرے سے زمین، تیسرے سے جنت و دوزخ اور پھر چوتھے حصہ کے چار حصے کئے۔ پہلے حصہ سے اہل ایمان کی بصارت کا نور اور دوسرے سے ان کے دلوں کا نور اور تیسرے سے ان کی زبانوں کا نور جو کلمہ توحید ’’لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے پیدا کیا۔ (مسند عبد الرزاق)
تخلیق نور محمدی ﷺ کی اولیت کے بارے میں منجملہ روایات کے ایک روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا ’’یارسول اللہ! آپ کے لئے نبوت کس وقت ثابت ہو چکی تھی؟‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں اس وقت بھی نبی تھا، جب کہ آدم علیہ السلام روح و جسد کے درمیان تھے (یعنی ان کے تن میں ابھی جان نہیں آئی تھی)‘‘ (ترمذی شریف) آپ ﷺ کے نورانی وجود کی اولیت پر وہ آیت بھی دلیل ہے، جو تیسرے پارے کے آخری رکوع میں میثاق انبیاء سے متعلق آیت ہیں۔ تمام انبیاء کرام سے آپ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا نہایت شد و مد سے اقرار لیا گیا ہے، کیونکہ آپ کی خلقت سے پہلے انبیاء کرام سے عہد کا لیا جانا عقلاً و نقلاً متصر نہیں ہوسکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام کو جو کمالات و معجزات عطا کئے گئے ہیں، وہ سب آپ کے نور کے برکات ہیں، جیسا کہ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے قصیدہ بردہ میں فرمایا کہ ’’ہر وہ معجزہ جو مرسلین کرام سے ظاہر ہوا ہے، اس کے سواء نہیں کہ وہ معجزات آپ ہی کی نور کی برکت سے ان سے ظہور میں آئے ہیں‘‘۔

حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس خیال کی تائید مواہب لدنیہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب حق تعالی نے نور محمدی ﷺ کو پیدا فرمایا تو آپ کے نور کو حکم دیا کہ انبیاء کے انوار کو دیکھو۔ جب آپ کے نور نے انبیاء کے نور کو دیکھا تو آپ کے نور نے ان کے نور کو ڈھانپ لیا۔ انبیاء کرام نے حیران ہوکر عرض کیا ’’الہی! یہ کس کا نور ہے؟‘‘۔ ارشاد ہوا ’’یہ محمد (ﷺ) کا نور ہے، تم اگر اس پر ایمان لاؤ گے تو ہم تمھیں نبوت سے سرفراز کریں گے‘‘ تو سب نے کہا ’’ہم ان پر ایمان لائے‘‘۔یہی وہ نور تھا، جو عرش سے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم اطہر میں منتقل ہوا۔ یکے بعد دیگرے آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کے صلب میں منتقل ہوا۔ جن جن اصلاب سے یہ منتقل ہوتا گیا، وہاں وہاں عجیب عجیب برکات ظہور میں آئے۔ سیر کی بہت سی کتابوں میں یہ روایت منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جنگ تبوک سے واپسی کے موقع پر عرض کیا ’’یارسول اللہ! مجھ کو اجازت دیجئے کہ کچھ آپ کی مدح بیان کروں‘‘ تو حضرت عباس نے ایک مدحیہ قصیدہ سنایا، جس پر حضور ﷺنے انھیں دعاء دی۔ منجملہ اشعار کے ایک شعر یہ ہے:
وردت نارالخلیل مکتتما
فی صلبہ انت کیف یحترق
یعنی ’’جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو آپ ان کی پشت میں تھے تو وہ کیونکر جل سکتے تھے‘‘۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ان کے کلام کی کچھ اصلاح نہیں فرمائی، جس سے اس کلام کی شاعرانہ حیثیت باقی نہ رہی، بلکہ شرعی حیثیت آگئی۔ کیونکہ کسی بات پر شارع علیہ السلام کا سکوت اس کو شرعی مسئلہ بنا دیتا ہے۔
اسی نور کے ظہور کا سارا عالم منتظر تھا، جس کے ظہور کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاء کی تھی اور حضرت عیسی علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور ہر نبی نے اپنے اپنے زمانوں میں ان کی آمد کی خوش خبریاں دی تھیں۔
آخر وہ ساعت آہی گئی، جس کی تمام دنیا منتظر تھی۔ربیع الاول فصل بہار کا زمانہ تھا، رات اور دن معتدل، نہ سردی کی شدت اور نہ گرمی کی حدت۔ بلبلان چمن اور طوطیان گلشن میں عشرت و شادمانی کا چرچا تھا۔ ۱۲؍ ربیع الاول دوشنبہ کا دن تھا، صبح صادق کے وقت قبل از طلوع آفتاب وہ نور افلاک بہار لولاک باعث تخلیق آدم مقصود جمیع عالم سید الکونین رسول الثقلین سلطان دارین حضور احمد مجتبی محمد مصطفیٰ ﷺ کمال حسن و جمال اور نہایت جاہ و جلال سے ظہور میں آئے۔حضور نبی کریم ﷺکے دو لباس ہیں، ایک بشری دوسرا نوری، جو آپ کا حقیقی لباس ہے آپ کی عظمتوں کا جو کچھ ادراک کیا جاتا ہے، اس کا تعلق بشری جہت سے ہے، نورانی جہت سے آپ کی عظمت کا حقیقی ادراک ناممکن ہے۔
عقل و دانش کی حدوں سے ہے بلند تیرا مقام
فکر انسانی سے ممکن نہیں عرفاں تیرا