حقیقی موضوعات سے توجہہ ہٹانے کے لئے بی جے پی نے ارٹیکل370لایاہے۔ شر د پوار

,

   

شرد پوار نے کہاکہ ”مذکورہ وزیراعظم نے کہاکہ ’اپنے منشور میں مسٹر شرد پوار کو اپنا موقف واضح کرنا چاہئے‘ سب سے پہلے ہمارے منشور جاری ہوگیاہے۔ اور جب (ارٹیکل) 370ہٹادیاگیا ہے تو ہم اس پر اب کیاکہہ سکتے ہیں؟“

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) کے سربراہ 78سالہ شرد پوار 21اکٹوبر کو مہارشٹرا میں منعقد ہونے والے اسمبلی الیکشن میں مرکزی اپوزیشن کے طور پر سامنے ائے ہیں۔

انہوں نے ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے قومی معاملات پر توجہہ مرکوز کرنے کی وجہہ سے اپوزیشن کودرپیش مشکلات کے متعلق بات کی ہے۔

پیش ہے یہاں پر اس بات چیت کے اقتباسات

جولوگ اس کو ایک طرفہ لڑائی کہہ رہے ہیں اس کا آپ ردعمل کیسے دیں گے؟
مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے اگر یہ ایک طرفہ لڑائی ہے تو وزیراعظم (نریندر مودی) یہاں پر نو عوامی جلسوں سے کیوں خطاب کررہے ہیں؟ کیو ں مرکزی وزیرداخلہ (امیت شاہ) 20جلسوں سے خطاب کررہے ہیں؟۔کیوں وہ یہاں پر اتنا وقت گذار رہے ہیں؟۔ سارے ملک سے بی جے پی قائدین‘ اس کے اراکین پارلیمنٹ ریاست کے کونے کونے میں جارہے ہیں۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حالات ان کے موافق نہیں ہیں۔ جو ہم نے 2019کے لوک سبھا الیکشن میں دیکھا ہے اور جو ہم اسمبلی الیکشن میں دیکھ رہے ہیں اس میں بڑا فرق ہے۔ اسی طرح کے حالات پورے مہارشٹرا میں ہیں‘ اور جن کے پاس معلومات کی کمی ہے وہی یہ کہہ رہے ہیں کہ(لڑائی یکطرفہ ہے)۔
مذکورہ کانگریس کو بڑی مشکل سے راجستھان او رمدھیہ پردیش میں 2018کے اسمبلی الیکشن میں اکثریت حاصل ہوئی ہے؟
وہاں پر بی جے پی کی سابق میں حکومت تھی۔ لہذا عوام نے بڑے پیمانے پر بی جے پی حکومت کو نکال باہر کیا۔ ایک اکثریت ہر حال میں اکثریت ہوتی ہے

کیاآپ کو احساس ہورہا ہے کہ ایک کا ساتھی کمزور ہے؟۔ مذکورہ کانگریس کو بڑے پیمانے پر داخلی خلفشار کا سامنا ہے۔ ملند دیوا اور سنجے نروپم جیسے لوگ ایک دوسرے پر حملہ کررہے ہیں؟۔

میں اتنا نہیں سونچتا۔ آپ اگر کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں وہاں پر کانگریس کی حمایت میں ایک بڑی آبادی ملے گی۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ امیدوار کون ہے‘ وہ صرف کانگریس کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔

اس قسم کی بنیاد وہاں پر ہے۔درج فہرست پسماندہ طبقا ت او راقلیتوں کے لئے ان کی پارٹی کانگریس ہے۔

یہ ایک مضبوط بنیاد ہے۔ جن لوگوں کے نام کا آپ نے ذکر کیاہے وہ ریاست میں کانگریس کے حقیقی لیڈران نہیں ہیں۔ وہ ٹیم میں شامل ہیں مگر زمینی سطح سے جڑے لیڈران میں ان کاشمار نہیں ہوتا۔

بی جے پی نے قومیت کو اجاگر کیاہے اور جموں اور کشمیرسے ارٹیکل 370کو ہٹادیا۔ اس کا کیااثر پڑے گا؟

آپ کو مذکورہ الیکشن میں اصلی مسائل دیکھنے ہوں گے۔ زراعی طبقات میں بحران ہے۔16000کسانوں نے خودکشی کرلی۔ اگر کچھ حالات بہتر قیمتوں کے انہیں ملتے ہیں تو حکومت فوری مداخلت کرتی ہے۔

اس کے لئے پیاز کے کسانوں کا معاملہ ہے۔ جب انہیں اچھی قیمت مل رہی تھی‘ مذکورہ حکومت نے پیاز کی درآمد بند کردی۔ یہ تمام پالیسیوں سے زراعت پر اثر پڑرہا ہے۔

بینج او رکھاد کی قیمتوں پر کنٹرول یا قابو بلکل نہیں ہے۔ دوسری بات ہم تمام کئی سالوں سے مہارشٹرا کو ایک صنعتی اسٹیٹ کے طور پر ترقی دینے کے فیصلے پر سنجیدہ ہیں۔

اسی وجہہ سے (ریاست کے پہلے چیف منسٹر) وائی بی چوہان کے دنوں سے ہم نے ناگپور‘ اورنگ آباد‘ اور صنعتی پالیسیوں کو پیش کیا۔

ان تمام علاقوں میں ہزاروں لوگ کام کررہے ہیں۔ آج کے وقت میں بی جے پی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ پالیسیوں کی وجہہ سے 50فیصد سے زیادہ صنعتی یونٹس بند ہوگئے ہیں۔

صنعتوں کی تباہی ریاست کا سب سے حساس مسئلہ ہے۔نوجوانوں میں بے روزگاری۔ پونا میں 30-40انجینئرنگ کالج آپ کو مل جائیں گے‘ مگر گریجویٹ ہونے والے لاکھوں طلبہ کو نوکری نہیں مل رہی ہے۔

یہ تمام انتخابات مسائل ہیں جس سے توجہہ ہٹانے کے لئے (مذکورہ بی جے پی) باربار ارٹیکل370کو سامنے لارہی ہے۔

مذکورہ وزیراعظم نے کہاکہ ’اپنے منشور میں مسٹر شرد پوار کو اپنا موقف واضح کرنا چاہئے‘ سب سے پہلے ہمارے منشور جاری ہوگیاہے۔

اور جب (ارٹیکل) 370ہٹادیاگیا ہے تو ہم اس پر اب کیاکہہ سکتے ہیں؟“۔ میں نے برسرعام یہ بیان دیا کہ اقدام اچھا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی کہا‘ کسی نے اس کی مخالفت نہیں ہے۔ ارٹیکل370آج کا مسئلہ نہیں ہے۔

میں ہر عوامی جلسہ عام میں کہا ہے‘ کون جموں کشمیر میں اراضی خریدے گااور وہاں پر زراعت کرے گامگر کسی نے جواب نہیں دیا۔

ارٹیکل371کاکیااگر میں ناگالینڈ‘ سکم میں اراضی خریدتاہوں میں شمال مشرق کے کسی حصہ میں نہیں کرسکتا۔ یہ بڑے پیمانے پر عوامی مسئلہ نہیں ہے

یہاں پر ایک تاثر یہ ہے کہ مودی کے ساتھ آپ کا موزانہ بہتر ہے۔

میں ہوں۔ میں ان کی کئی پالیسیوں پر یقین نہیں رکھتا اور میں اب ان سے ملاقات کوموقع مل جائے تو ضرور تبادلہ خیال کروں گا۔ حال ہی میں میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ میں دہلی میں نہیں تھا اور زیادہ تر وقت میں ہندوستان کے باہر رہتاہوں۔

میرے پاس ذاتی نفرت نہیں ہے۔سب سے کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ ذاتی تعلقات اور سیاسی پیش قدمی دونوں الگ بات ہیں۔

سیاسی پیش قدمی اس ملک کے لیڈروں کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے
آپ کے اور اپنے بھیتجے اجیت پوار اور این سی پی لیڈر پرفال پٹیل کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے کیسے کا کیانتیجہ نکلے گا ہم اس کے متعلق نہیں جانتے۔

مگر سیاست قیاس آرائیوں کے متعلق ہے؟۔
میرے خلاف کیامعاملہ ہے؟ یہاں پر ریاستی اسٹیٹ کوپراٹیو بینک کے 50ڈائرکٹرس ہیں۔انہوں نے ضلع بینکوں اور انڈسٹریز کے لئے پیسے لئے‘

انفرادی طور پر نہیں۔یہاں پر تمام ڈائرکٹرس کے خلاف الزامات عائد کئے گئے ہیں‘ جو بی جے پی‘ شیو سینا‘ کانگریس او راین سی پی سے تعلق رکھتے ہیں۔

مذکورہ شکایت کردہ نے کہاکہ زیادہ تر ڈائرکٹرس مسٹر پوار کو جانتے ہیں۔ ہاں میں جانتا ہوں کیونکہ وہ اہم لوگ ہیں۔ اگر میں کسی جو جانتاہوں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوا ہے کہ میں مجرم ہوں؟۔ نہ تو میں بینک کا ڈائرکٹر تھا او رنہ ہی فیصلہ ساز باڈی کا رکن تھا۔

اس بنیاد پر آپ کیس بناتے ہیں‘ محض اجیت پوار کے نام کا ذکر کرکے؟ پھر کیو ں نہیں بی جے پی او رشیو سینا کے لیڈران کو بھی شامل کرتے ہیں جو ڈائرکٹرس ہیں؟۔

شرد پوار نے با ت چیت میں پرفال پٹیل پر عائد کیس کو بھی بے بنیاد الزامات کا نتیجہ قراردیا اور کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے رافائیل معاملے کو اٹھانے پر لاتعلقی کا اظہار کیااور کہاکہ ہم تو کسانوں کے بحران‘ خودکشی اور صنعتی شعبہ کی تباہی جیسے مسائل کو اجاگر کررہے ہیں۔

ارٹیکل370اور رافائیل جیسے معاملات کو کیو ں اٹھایاجارہا ہے؟ مہارشٹرا کے الیکشن سے اس کا کیا لینا دینا ہے؟