حیدرآباد پر فرقہ پرست مہم کی یلغار، عوام کے شعور کا امتحان

,

   

مرکزی قائدین کی آمد کے باوجود عوام پر کوئی اثر نہیں،ترقی ، امن و خوشحالی کے ایجنڈہ کے ساتھ ٹی آر ایس کو انتخابی مہم میں سبقت
حیدرآباد۔ گریٹر حیدرآباد بلدی انتخابات کی مہم کے اختتام کا اتوار آخری دن ہے لیکن گذشتہ ایک ہفتہ میں فرقہ پرست طاقتوں نے حیدرآباد پر یلغار کرتے ہوئے رائے دہندوں کو مذہب کی بنیاد پر منقسم کرنے اور شہر کی پُرامن فضاء متاثر کرنے کی کوشش کی۔ عوام کے شعور کے امتحان کا وقت آچکا ہے اور آئندہ دو دنوں میں انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ پُرامن حیدرآباد چاہیئے یا پھر دوبارہ فسادات اور فرقہ وارانہ کشیدگی۔ حیدرآباد کو امن وامان کے شہر کی حیثیت سے برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ 7 برسوں میں ٹی آر ایس حکومت نے کئی ترقیاتی اور فلاحی اسکیمات کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجہ میں بین الاقوامی سطح پر حیدرآباد نے تجارت اور رہائش کیلئے بہتر مقام کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن پر قبضہ کیلئے بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے اپنی ساری طاقت جھونک دی اور وزیر اعظم سے لیکر امیت شاہ، جے پی نڈا ، یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی وزراء کا تانتا بندھ گیا۔ عوام کے بنیادی مسائل اور ترقی کے بجائے نفرت کے ایجنڈہ کا پرچار کرتے ہوئے رائے دہندوں میں اُلجھن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے حیدرآباد کے عوام یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ آیا یہ لوک سبھا یا اسمبلی کی انتخابی مہم تو نہیں۔ مجالس مقامی کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کا ایجنڈہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی پر مبنی ہونا چاہیئے لیکن بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے اپنے خفیہ ایجنڈہ کو عوام کے روبرو رکھتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن عوام نے اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفرت کے ایجنڈہ کو مسترد کردیا۔

عوام پہلے ہی کورونا لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ غریب و متوسط طبقات معاشی بحران اور تاجر برادری کاروبار کی کمی کے نتیجہ میں ملازمین اور ورکرس کو خدمات سے علحدہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندان ابھی بھی لاک ڈاؤن کے اثر سے اُبھر نہیں پائے ایسے میں ترقی کے ایجنڈہ کے ساتھ عوام کے درمیان رہنے والی ٹی آر ایس پارٹی کو عوام کی غیر معمولی تائید حاصل ہورہی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جو تلنگانہ تحریک سے آج تک حیدرآبادی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے میں سرگرم رہے ہیں ان کی قیادت میں کے ٹی راما راؤ نے اس روایت کو جاری رکھا ہے۔ کے ٹی آر انفارمیشن ٹکنالوجی کے علاوہ شہر کی ترقی کے ایک جامع ایجنڈہ کے ساتھ کام کررہے ہیں اور دونوں محاذوں پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ شہر میں حالیہ سیلاب کی تباہی کے موقع پر ٹی آر ایس ملک کی وہ واحد حکومت ہے جس نے متاثرین میں 640 کروڑ سے زائد کی رقم تقسیم کی جبکہ حکومت نے 550 کروڑ کا اعلان کیا تھا۔ رائے دہی کی تکمیل کے بعد باقی متاثرین میں 10 ہزار روپئے کی تقسیم کی جائے گی۔ حیدرآباد کے ایسے علاقے جہاں تلگودیشم پارٹی کے ارکان اسمبلی نمائندگی کرتے ہیں وہاں رائے دہندوں نے بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کا من بنالیا ہے اور ہندوتوا ایجنڈہ کو کامیاب نہیں مل سکتی۔ نفرت اور پھوٹ ڈالنے والی طاقتوں سے ترقی، امن، یکجہتی اور استحکام متاثر ہوگا۔ ایک بار یہ طاقتیں اپنے قدم جمالیں گی تو پھر اُتر پردیش اور گجرات کی طرح سیکولر طاقتوں اور اقلیتوں کیلئے روزانہ نت نئے مسائل پیدا ہونگے اور ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل کے ذریعہ حیدرآباد کی رواداری کی روایات متاثر ہوجائیں گی لہذا عوام کو شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے مقابلہ میں ترقی کے ایجنڈہ کی کامیابی نہ صرف حیدرآباد بلکہ تلنگانہ ریاست میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان رکھنے والی طاقتوں اور حیدرآباد کے رائے دہندوں کو یکم ڈسمبر کے دن ٹی آر ایس کے حق میں ووٹ کا استعمال کرکے فرقہ پرست اور علحدگی پسند طاقتوں کے خلاف فیصلہ سنانا ہوگا۔