حیدرآباد کی ایک ریسٹورنٹ میں مسلم عورت سے حجاب نکلالنے کا استفسار‘ داخلہ پر لگائی روک

,

   

جوبلی ہلز میں سانٹیوری بار اینڈ ریسٹورنٹ مسلم عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہہ سے کہرام کی زد میں آگئی ہے
حیدرآباد۔ شہر کے ایک پاش علاقے جوبلی ہلز کی سنکیوری بار اور کچن میں ایک 24سالہ شہر کے ساکن زرین سے کہاکہ ”حجاب او ربرقعہ پہنی ہوئی خواتین کا داخلہ منع ہے۔

اگر پھر بھی آپ اندر گئیں تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے“۔ زرین ان خواتین کے گروپ میں شامل ہیں جنھوں نے چند دن قبل سوشیل میڈیاپر اس مسلئے کو اٹھا یا تھا۔ مذکورہ عورت نے انسٹاگرام پر برقعہ یاحجاب پہننے کی صورت میں مذکورہ ریسٹورٹ پر اپنے ساتھ پیش آنے والے امتیازی سلوک کے تجربہ شیئر کیاہے۔

مذکورہ عورت نے الزام لگایا کہ ریسٹورٹ پر یہ معمول کا عمل ہے کیونکہ اس طرح کے امتیازی سلوک کے متعد د واقعات سامنے ائے ہیں۔

اکٹوبر2020میں زرین کی دوست اور ان کی اس وقت میں 19سالہ چھوٹی بہن نے سنکیوری کھانا کھانے کے لئے جانے کا فیصلہ کیاتھا۔ بانسر س کی ڈانٹ ڈپٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ دونوں ریسٹورنٹ میں داخل ہوگئے مگر وہاں کا عملے 20منٹ تک ان لوگوں کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔

زرین جو اس وقت حجاب پہنے ہوئے نہیں تھی ان کی خدمت کی گئی اور باقی لوگوں کے ساتھ دشمنی برقرار رہی اور یہاں تک انہیں تصویریں لینے سے بھی منع کیاگیا تھا۔

مایوس زرین جس نے اس وقت اپنے بہن کونین کو اس واقعہ کے متعلق بتایاتھا کا کہنا ہے کہ ”میری چھوٹی بہن رات میں روتی رہی کیونکہ اس کے ساتھ ماضی میں کسی نے بھی ایساسلوک نہیں کیاتھا“۔

زرین نے کہاکہ یہ نہ صرف اسلام فوبیاہے بلکہ جنسیت بھی ہے۔

ہم گاہک ہیں ان کی آنکھوں کے سکون کے لئے ”اچھی نظر آنے والے“ نہیں ہیں۔ کونین او راس کی بہن نے سیاست ڈاٹ کام کو بتایاکہ”ہم نے لوگوں سے اس کے متعلق بات کرنے کی کوشش مگر 2020میں کسی کو اس کی فکرنہیں تھی“۔

تاہم ہفتہ (نومبر13اسی سال) کونین سوشیل میڈیا پر س سنکیورٹی کے اسلام فوبیا اورجنسیت پر مشتمل برتاؤخلاف تنقید یں بڑھنے کی صورت میں ایک اسٹوری رکھی۔

متعدد مرتبہ کونین کی تشویش پر شکایتیں اور ای ملیوں کے باوجود سنکیوری بار اورکچن نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیاہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہم نے ریسٹورنٹ کولکھا مگر انہوں نے نظر انداز کردیا۔

یہاں تک ہماری باتوں کو بھی نکال دیاگیاہے“۔ اپنے انسٹاگرام پوسٹ پر ایک اور عورت نے لکھا کہ ”اس سال ہونے والی میری سالگرہ کے موقع پر بھی ایسا ہوا ہے۔

انہوں نے درحقیقت میرے دوستوں سے جو حجاب پہنے ہوئے تھے چلے جانے کو کہا جس کے بعد ہم ڈنر کے لئے دوسری جگہ چلے گئے“۔ سیاست ڈاٹ کا کو جانچ کرنے پر اس بات کاانکشاف ہوا ہے کہ کم ازکم چھ خواتین ریسٹورنٹ جانے پرامتیازی سلوک کا نشانہ بنے ہیں۔

مذکورہ خاتون کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ریسٹورنٹ کی مذمت کی جارہی ہے جبکہ یہ مسلئے کافی وقت سے چل رہا ہے۔

اسی پر جب سنکیوری بار اینڈ کچن کے منیجر سے سوکمار سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش ہی نہیں آیاہے۔

انہوں نے کہاکہ ”حجاب پہنی ہوئی عورتوں کو داخلہ پرممانعت نہیں ہے مگر انہیں کورٹ یارٹ میں بیٹھنے نہیں دیاجاتاکیونکہ وہاں پرلوگ شراب نوشی کرتے ہیں ویسی بھی شراب نوشی تو ان کے پاس جائزنہیں ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”اس طرح ٹھیک بھی نہیں لگتا ہے“۔


مسلمان خواتین کے ساتھ ہونے والی ہراسانی کے واقعات
مقامی میک آپ آرٹسٹ زیبا نے بتایا کہ ان کی ایک مسلم دوست کو حجاب اتارنے سے انکار پر ریسٹورنٹ سے جانے کو کہاگیاتھا اورایک ڈیجیٹل کریٹر فاقیہ نے بھی ذکر کیاکہ برقعہ پہنی ہوئی ان کی ایک دوست کو ریسٹورنٹ کے کورٹ یارٹ میں جانے سے روک دیاگیاتھا۔

تاہم یہ معاملہ حل ہوتا نہیں دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ ریسٹورٹ اس بدسلوکی کے لئے خود کوذمہ دار نہیں ٹہرارہا ہے۔ سیاست ڈاٹ سے بات کرتے ہوئے حیدرآباد نژاد ایک وکیل ال رضوی نے کہاکہ جبکہ یہ واقعہ بدقسمتی ہے مگر اس کو حل کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”ایسا کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ کسی کو ریسٹورٹ میں روکیں جیسا کہ مضحکہ خیز انداز میں یہ ریسٹورنٹ کررہا ہے۔

تاہم جب تک فوجداری عدالتو ں میں اس معاملے کو چیالنج نہیں کیاجاتا ہے تب تک قانونی بات کے لئے ایسی ریسٹورنٹس کو جوابدہ نہیں بنایاجاسکتا ہے“۔

اہم بات کو یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات اب غیرمعمولی ہوگئے ہیں۔ اکٹوبر میں ممبئی میں ایک ریسٹورنٹ نے حجاب پہنی ایک عورت کو داخل ہونے سے روک دیاتھا‘ جس کا ویڈیوسوشیل میڈیاپر وائیرل ہوا تھا۔


(اس مضمون میں پیش کئے گئے خواتین کے سارے نام تبدیل شدہ ہیں تاکہ ان کی شخصی شناخت کومخفی رکھا جاسکے)