خطبات نبویؐکی جامعیت

   

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی فصاحت و بلاغت اور آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا اُسلوب بیان ، فیضان الٰہی اور وحی الٰہی تھا ۔ آپ ﷺالفاظ میں نازک معانی بیان فرمایا کرتے تھے ۔ تمام قبائل عرب کے لہجوں اور لغات کا اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو علم عطا فرمایا تھا ۔ (الادب العربی و تاریخہ ، ۱:۳۴) ۔ الجاحظ نے لکھا ہے کہ نہ تو آپ ﷺنے الفاظ کی تلاش میں کبھی مشقت کی اور نہ معانی پیدا کرنے کے لئے تکلف سے کام لیا ( البیان والتبیین ، ۱:۲۷۱، ۷۷) آپ ﷺفرمایا کرتے تھے کہ تکلف و تصنع والی خطابت سے میں پرہیز کرتا ہوں ، مجھے وہ اچھے نہیں لگتے جو باتونی اور زبان دراز ہوتے ہیں ۔
(کتاب مذکور)
جاحظ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے متعدد جوامع الکلم اور خطبات نقل کرنے کے علاوہ آپ ﷺکی فصاحت و بلاغت کی بڑی بہترین تشریح کی ہے ۔ وہ آپ ﷺکے اسلوب خطابت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے ’’آپ ﷺکا کلام ،قلت الفاظ کے باوجود کثرت معانی سے متصف تھا ۔ آپ ﷺتصنع اور تکلف سے اجتناب فرماتے تھے اور صحیح معنوں میں اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عملی تفسیر تھے جس میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ( اے محمد ! (ﷺ) ’’ کہہ دیجئے کہ میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘ (الایۃ) جہاں تفصیل کی ضرورت ہوتی آپ شرح و بسط سے کام لیتے اور جہاں اختصار کا موقع ہوتا آپ مختصر خطاب فرماتے ۔ آپ ﷺ کے کلام میں نہ تو غیرمانوس الفاظ ہوتے اور نہ عامی الفاظ ۔ آپ ﷺ جب ارشاد فرماتے ،حکمت کے چشمے پھوٹتے ۔ آپ کے اسلوب بیان کو اﷲ تعالیٰ کی حمایت و تائید اور توفیق حاصل تھی ۔ آپ کا بیان معجز نظام ایسا تھا جسے اﷲ کی جانب سے محبوب و مقبول ہونے کا شرف بخشا گیا تھا جس میں رعب و دبدبہ بھی تھااور شیرینی بھی۔ جو قلت کے ساتھ ساتھ حسنِ تفھیم کا پہلو بھی رکھتا تھا ۔ آپؐ کی بات اسقدر واضح اور عام ہوتی کہ جسے دہرانے یا دوبارہ سننے کی حاجت نہ رہتی تھی ( پھر بھی اگر کوئی دہرانے کی درخواست کرتا تو آپ رد نہ فرماتے تھے)۔ آپ کے کلام میں کبھی لغزش یا نقص پیدا نہ ہوا ۔ آپ ﷺ کا بیان مدلل ہوتا تھا اور آپ ﷺ  کو کوئی خطیب کبھی بھی لاجواب نہیں کرسکا ۔
آپ ﷺکے طویل خطبات میں جملے پرمغز و مختصر ہوتے تھے۔ آپ ﷺ حق و صداقت کی بات کرتے ، الفاظ کے ہیرپھیر کا سہارا لینے اور عیب جوئی سے ہمیشہ اجتناب فرماتے ، نہ سست روی سے کام لیتے ، نہ جلد بازی سے ۔ اپنے کلام کو نہ حد سے طول دیتے اور نہ بات کرنے سے عاجز آتے ، بلکہ آپ ﷺ کے کلام سے زیادہ فائدہ بخش ، لفظ و معنی میں متوازن اور بلند مقصد کلام کسی کا نہ تھا ۔ اثر میں کامل ، ادا میں آسان ، لفظوں میں فصیح اور مقصد میں بلیغ ‘‘ ۔
(ماخوذ از سیرت خیرالانام)
آپ ﷺکے عہد کے شعراء و بلغاء اکثر یہی کہتے تھے کہ فی البدیہہ خطبات کی فصاحت و بلاغت کا معجزہ ہی آپ ﷺکے لئے کافی تھا ۔
( ابن قتیبہ : عیون الاخیار ، ۱:۴۲۴۱)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آپ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! میں بلاد عرب میں اکثر گھوما پھرا ہوں ، عرب کے بیشمار فصحاء کی باتیں سنی ہیں مگر میں آپ ﷺ  سے زیادہ فصیح و بلیغ کوئی نہیں دیکھا ۔ آپ ﷺ کو فصاحت و بلاغت کا یہ کمال کیونکر حاصل ہوا ، آپ ﷺ نے جواب دیا ’’مجھے میرے رب نے ادب سکھایا ہے اور جہت ہی خوب سکھایا ہے ‘‘ ۔
(الاداب العربی و تاریخہ ، ۱:۳۴)
علمائے نقد و ادب نے نبی اکرم ﷺ کی فصاحت و بلاغت اور آپ ﷺ کے ارشادات و خطبات کے ادبی مقام و مرتبہ سے بحث کی ہے۔ آپ ﷺ کے عہد کے حالات ، ماحول اور آپ ﷺ کی تربیت پر اثرانداز ہونے والے اسباب و عوامل کا مطالعہ کیا ہے ، جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عربی زبان کا علم و ذوق رکھنے والا ہر مصنف مزاج اور عاقل و دانشمند شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ کلام عرب میں فصیح ترین کلام ، کلام الٰہی ہے اور اس کے بعد فصاحت و بلاغت میں نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کا مرتبہ ہے ( بکری امین : ادب الحدیث النبوی ، ص: ۱۷۱)
محققین نے آپ ﷺ کے افصح العرب ہونے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اولین (بظاہر ) سبب تو یہ تھا کہ آپ ﷺ بنوہاشم میں پیدا ہوئے اور قریش میں نشوونما پائی ، دوسرا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺ کی رضاعت و تربیت بنوسعد بن بکر ( بنوہوازن ) میں ہوئی تھی جس کی فصاحت و بلاغت ، قریش کے بعد مسلم تھی ۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کا ننھیال بنوزہرہ تھا اور آپ ﷺ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا بنواسد سے تھیں۔ یہ قبائل بھی فصاحت و بلاغت میں نمایاں مقام رکھتے تھے ۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ اﷲ کا آخری کلام قرآن مجید ، عربی میں نازل ہوا ۔ چنانچہ آپ ﷺ کے کلام پر کلام اﷲ کی فطرت سلیمہ تھی ، جس میں عنایت ایزدی نے تمام کمالات ودیعت فرمادیئے تھے ( الحدیث النبوی ص : ۱۰۲) یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کا فصیح و بلیغ کلام اہل علم و ادب کے لئے ایک روحانی غذا ثابت ہوا ۔ آپ ﷺ کے ارشادات و خطبات سے اہل علم نے جو فوائد حاصل کئے ، ان میں چند ایک یہ تھے کہ فقھاء کے اقوال حفظ کرکے ادب کو مزین کیا گیا ۔ احادیث کے اقتباسات سے اہل علم نے اپنی نگارشات کو سجایا ۔ آپ نے دینی مسائل کا استنباط کیا۔محدثین نے آپ ﷺ کے ارشادات کی تفسیر و تشریح کی ۔ اہل لغت و عام اہل ادب کو فصاحت و بلاغت کا ایک ذخیرہ میسر آگیا ۔ (سیرت خیرالانام )
نمونہ کے طورپر نبی اکرم ﷺکا اولین خطبہ پیش ہے جو تاریخ میں محفوظ ہے ۔ اس میں آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان فرماتے ہوئے قریش مکہ اور عرب و عجم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : ’’کوئی بھی خبر لانے والا اپنوں سے جھوٹ نہیں کہتا ۔ اور اگر بفرض محال میں سب دنیا والوں کو دھوکا دیتا تو تمہیں پھر بھی کبھی دھوکا نہیں دیتا ۔ قسم ہے اﷲ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ میں اﷲ کا رسول ہوں ، جسے تمہاری طرف خصوصاً بھیجا گیا ہے اور باقی تمام انسانوں کی طرف بھی بھیجا گیا ہوں ۔ واﷲ ! تم اسی طرح مرجاؤ گے جس طرح تم سوتے ہو اور اسی طرح اُٹھوگے جس طرح تم بیدار ہوتے ہو ۔ تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہی ہوگا ۔ پھر بھلائی کا بدلہ بھلائی اور برائی کا بدلہ برائی ہوگا۔ پھر یاتو ہمیشہ کے لئے جنت ہوگی یا جھنم‘‘ ۔
(ابن الاثیر : الکامل ، ص :۲۷)