دولتمند اور طاقتور لوگ عدالت چلانے کی کوشش کررہے ہیں

,

   

سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے بلیک میل کرنے والے دراصل آگ سے کھیل رہے ہیں : جسٹس ارون مشرا
نئی دہلی 25 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ کے جج جسٹس ارون مشرا نے سپریم کورٹ کے کام کاج میں مداخلت کرنے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ملک میں اس وقت دولتمند اور طاقتور لوگ عدالتیں چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال کر اسے بلیک میل کرتے ہوئے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرنے والے دراصل آگ سے کھیل رہے ہیں۔ جسٹس ارون مشرا نے سپریم کورٹ میں ہونے والی حالیہ کارروائیوں خاص کر چیف جسٹس آف انڈیا گوگوئی پر جنسی ہراسانی کیس کے حوالہ سے کہاکہ جب سپریم کورٹ نے دولتمندوں اور طاقتور لوگوں پر شکنجہ کسنہ شروع کیا تو یہ لوگ بے قابو ہوگئے اور چیف جسٹس کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عدلیہ پر حاوی ہونے لگے ہیں۔ ارون مشرا نے چیف جسٹس آف انڈیا اور اس ادارہ کی خدمت کرنے والوں کی پرزور مدفاعت کرتے ہوئے کہاکہ ایسے دولتمند اور طاقتور لوگ اپنی بات منوانے کے لئے حربے اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ میں وکیل اتسو سنگھ بینس کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر ایک گھنٹہ طویل بحث ختم ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کو پھانسنے کے لئے طاقتور لابی، غیرمعمولی اثر رکھنے والے ملازمین اور کارپوریٹ گھرانوں کی شخصیتوں نے جال پھیلایا ہے۔ مسٹر بینس نے دعویٰ کیاکہ ان سے ایک شخص جس کا نام ’’اجئے‘‘ بتایا گیا ہے نے رقم سے بھرے بریف کیس کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی، اس شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ عدالت کے عملہ سے تعلق رکھنے والے سابق ملازم کا رشتہ دار ہے جس نے چیف جسٹس کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے ہیں۔ اس ملک کو سچائی کا علم ہونا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کو پیسے کی طاقت یا سیاسی قوت کے ذریعہ چلایا نہیں جاسکتا۔

جب کوئی سسٹم کو صاف ستھرا بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا قتل کردیا جاتا ہے یا اسے کمزور کردیا جاتا ہے۔ راستے سے ہٹادینے کے لئے اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے۔ عدالت نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہاکہ وہ مداخلت نہ کریں خاص کر اس وقت جب وہ اس کیس کی تحقیقات کے لئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کررہے ہوں۔ یہ معاملہ ہم پر چھوڑ دیجئے۔ ہم اس ملک کے دولتمندوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ آگ سے نہ کھیلیں۔ جب آپ لوگ عدالتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں تو دراصل آگ سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو پھر اس ملک کی طاقت اور قوت کا کیا ہوگا۔ کیا یہ لوگ اس ملک کو چلا سکتے ہیں۔ جسٹس مشرا کی آواز پُرسکون و پرہجوم کمرۂ عدالت میں گونجتی رہی اور یہ آواز ملک کی آواز بن گئی۔ سینئر ایڈوکیٹ اندرا جئے سنگھ نے اندیشہ ظاہر کیاکہ اگر مسٹر بینس کے الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری حکومت کو دی جائے تو کیا انصاف ہوسکے گا؟