دِل کو اِیمان سے منکر نہیں ہونے دیں گے

   

بابری مسجد کے بعد شریعت نشانہ پر
سبری مالا مندر سے مساجد کو جوڑنا معنی خیز
پرسنل لا بورڈ چوکس رہے… مسلمان بے حسی سے جاگیں

رشید الدین

بابری مسجد اراضی سے محرومی کے صدمہ سے مسلمان ابھی ابھر نہیں پائے کہ شریعت میں مداخلت کا نیا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ شریعت میں مداخلت مرکز کی بی جے پی حکومت کے ایجنڈہ میں شامل ہے لہذا پارلیمنٹ میں مخالف شریعت قانون سازی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ان دنوں مسلمانوں اور شریعت کے معاملات میں عدلیہ کچھ زیادہ ہی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی وظیفہ پر سبکدوشی سے قبل بابری مسجد اراضی ملکیت سمیت بعض دیگر حساس مسائل پر قوم کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کا انتظار تھا۔ دو فیصلے مسلمانوں کیلئے چونکا دینے والے ثابت ہوئے ہیں۔ بابری مسجد اراضی سے متعلق فیصلے پر سابق ججس اور ماہرین قانون کی رائے کے بعد مزید کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ ثبوت اور دلائل مسلمانوں کے حق میں ہیں اس کا اعتراف سپریم کورٹ نے کیا۔ اس کے باوجود خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اراضی مندر کے حوالے کردی گئی۔ یہ تو ایسا ہے جیسے کسی جائیداد کے حقیقی مالک کو بے دخل کرتے ہوئے غیرمجاز قابض کو ملکیت کا اختیار دے دیا جائے۔ 5 ججس کا یہ فیصلہ بظاہر متفقہ ہے لیکن جب کبھی قانون کے طلبہ کو یہ پڑھایا جائے گا تو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ طلبہ میں اتفاق رائے نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ نے مانا کہ 1949ء میں مسجد میں مورتیوں کی تنصیب اور 6 ڈسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت ’’غیرقانونی‘‘ ہے لیکن مسجد کی اراضی ان کے حوالے کردی گئی جو دونوں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ دوسرے معنوں میں جن کا دامن داغدار ہے انہیں اراضی حوالے کردی گئی۔ اگر وہی افراد مسجد کے حقیقی حق دار ہیں تو پھر ان کے خلاف مقدمہ کس بات کا چل رہا ہے؟ جب مورتیاں رکھنا اور مسجد کی شہادت غیرقانونی ہے تو قانون کے ملزمین کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے۔ اس کی وضاحت کے بغیر ہی شہادت کے ذمہ داروں کو اراضی حوالے کردی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانون کی یونیورسٹیز اور ماہرین قانون میں مباحث کا سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہے گا۔ اگر مسلم پرسنل لا بورڈ درخواست نظرثانی کرتا ہے تو پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ ریویو کیلئے 7 رکنی دستوری بینچ سے رجوع ہوجائے گا۔ بابری مسجد سے محرومی کا زخم ابھی ہرا تھا کہ سپریم کورٹ نے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے کے مقدمہ سے مساجد کو جوڑ دیا۔ اس طرح شریعت اسلامی پر ایک نئے وار کی تیاری کی گئی۔ 28 ستمبر 2018ء کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے ایک کے مقابلے چار ججس کے متفقہ فیصلے کے ذریعہ کیرلا کی مندر میں خواتین کے داخلے کی اجازت دے دی۔ فیصلے پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور ہندوؤں کی آستھا کی دہائی دی جانے لگی۔ بی جے پی فیصلہ کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امیت شاہ نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ ہم فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ خواتین کا مندر میں داخلہ جب آستھا کا مسئلہ ہے تو پھر بابری مسجد مسلمانوں کی آستھا کیوں نہیں؟ بابری مسجد فیصلے سے قبل اور بعد سپریم کورٹ کے احترام کے حق میں جس طرح مہم چلائی گئی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی، امیت شاہ اور نریندر مودی نے سبری مالا کے ستمبر 2018ء کے فیصلے کا احترام کیوں نہیں کیا۔ حالانکہ وہ بھی پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ تھا۔ اپنی اور دیگر مذاہب کے آستھا کے بارے میں دہرے معیارات کیوں؟ کیا ہندوستان صرف اکثریتی طبقہ کی آستھا پر چلے گا؟ عدالت کا فیصلہ آستھا کے مطابق ہو تو دوسروں کو عدلیہ کے احترام کی تلقین کی جاتی ہے اور اگر فیصلہ آستھا کے خلاف ہو تو ریویو پٹیشن دائر کی جاتی ہے جس طرح سبری مالا کے ستمبر 2018ء کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔ دستور نے ہر شہری کو مذہبی آزادی دی ہے اور ہر ایک مذہبی جذبات کا احترام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ نے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے کے آستھا کے معاملے کو جس طرح 7 رکنی بینچ سے رجوع کیا، اسی طرح مسلمانوں کی آستھا سے جڑے اراضی معاملے کو بھی دستوری بینچ سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے خود کو سبری مالا معاملے میں نفس مسئلہ تک محدود رکھنے کے بجائے مساجد میں خواتین کے داخلے کو جوڑ دیا۔ اس کے علاوہ پارسی اور داؤدی بوہرہ خواتین کے حقوق کو بھی مقدمہ کا حصہ بناکر دستوری بینچ سے رجوع کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ دستوری بینچ خواتین کے یکساں حقوق کو بنیاد بناکر تمام معاملات میں ایک ہی فیصلہ دے سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سبری مالا مندر کا معاملہ بالکلیہ علیحدہ نوعیت کا ہے جبکہ مساجد کا مسئلہ شریعت سے متعلق ہے۔ ویسے بھی سبری مالا مندر کے علاوہ ملک کی کسی بھی مندر میں خواتین کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں، پھر کیوں اس تنازعہ سے مسلمانوں کو جوڑ دیا گیا۔ دراصل حالیہ عرصہ میں مسلمانوں اور شریعت کے مسائل پر عدلیہ کی دلچسپی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں کو مقدمہ سے جوڑ کر مندروں کی طرح تمام مساجد کو بھی خواتین کیلئے کھول دینے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
اب جبکہ شریعت میں مداخلت کا ایک اور مسئلہ وسیع تر بینچ سے رجوع ہوچکا ہے، تو مسلم پرسنل لا بورڈ کو چوکسی کی ضرورت ہے۔ جس طرح بابری مسجد اراضی کا فیصلہ ثبوت کے باوجود مخالفت میں آیا، کہیں اس معاملے میں ایسا نہ ہو، عدالت میں موثر پیروی کی ضرورت ہے۔ چند آزاد خیال خواتین کے مطالبہ کو بنیاد بناکر حکومت شریعت کو نشانہ بناسکتی ہے۔ آج مسجد میں داخلے کی عام اجازت طلب کی جارہی ہے، تو کل خواتین کو امامت کا حق دیئے جانے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ ہماری طرف سے شریعت کی سپریم کورٹ میں توضیح میں کوئی کمی نہ رہ جائے تاکہ عدالت کو اس کا فائدہ اُٹھاکر شریعت میں مداخلت کا موقع مل جائے۔ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ وکلاء کے کیس پیش کرنے پر منحصر ہے۔ اگر مساجد کے مسئلہ پر عدالتی پیروی میں کوئی کمی رہ جائے تو پھر ایک اور صدمہ کو برداشت کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ بابری مسجد کی طرح اس معاملے میں بھی مسلمانوں میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مسجد میں خواتین کے داخلے کا شرعی جواز پیش کرنے والے بعض مسالک کے رہنماؤں کو آگے کردیا جائے گا۔ جس طرح بابری مسجد اراضی کے فیصلے سے قبل اور بعد میں حکومت کے ’’گودی مذہبی لبادہ اُوڑھے ایجنٹس‘‘ میدان میں آگئے، اسی طرح مساجد میں خواتین کے داخلے کے حق میں یہی سازش دہرائی جاسکتی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ عدالتوں کو شرعی اُمور میں مداخلت سے روکنے کیلئے مسلمان اپنے ’’مسلکی اختلافات‘‘ کو بالائے طاق رکھ کر ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بن جائیں اور شریعت کا دفاع کریں۔ خواتین کے مساجد میں داخلے پر فقہی اختلافِ رائے ہوسکتا ہے لیکن اسے اس قدر نہ اُچھالا جائے کہ مخالفین کو شریعت میں مداخلت کا موقع ملے۔ سبری مالا مندر معاملہ سے مسلمانوں کو جوڑنا ماہرین کے مطابق شریعت محمدیؐ کو حکومت کی جانب سے نشانہ بنانے کی تیاری ہے کیونکہ حکومت کا اگلا نشانہ ’’یکساں سیول کوڈ‘‘ کا نفاذ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 2014ء میں نریندر مودی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک تیزی سے ہندوتوا ایجنڈہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈے میں شامل تین اہم اُمور میں دو کی تکمیل ہوچکی ہے۔ کشمیر سے دفعہ 370 کی برخاستگی اور رام مندر کی تعمیر مودی کی دوسری میعاد کی اہم کامیابیاں ہیں۔ ایجنڈے کے مطابق اب صرف یکساں سیول کوڈ کا نفاذ باقی ہے۔ بابری مسجد اراضی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ریمارک کیا کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کیلئے بہتر اور صحیح وقت آچکا ہے۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنے بیان کو تبدیل کرتے ہوئے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا میڈیا پر الزام عائد کردیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’دل کی بات زباں پر آگئی ہے‘‘۔ جس طرح مسلمانوں میں بے حسی کا ماحول ہے، اگر یہی کیفیت برقرار رہی تو بی جے پی کو یکساں سیول کوڈ کے نفاذ سے روکا نہیں جاسکتا اور انتخابی ایجنڈے کے تینوں اُمور کی تکمیل ہوجائے گی اور ہندوستان ’’سکیولر اسٹیٹ‘‘ کے بجائے ’’ہندو راشٹر‘‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔ جس طرح بابری مسجد اراضی فیصلے پر مسلمانوں میں سناٹا دیکھا گیا، مساجد میں خواتین کو داخلے کی اجازت پر بھی اسی طرح کی بے حسی جاری رہے گی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کسی بھی ناانصافی حتی کہ شرعی معاملات میں حکومتوں کے مداخلت پر جمہوری انداز میں احتجاج کے لئے مسلم قیادت تیار نہیں ہے۔ خود کو صرف بیان بازی تک محدود کرتے ہوئے مصلحتوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ بے حسی اس قدر عروج پر ہے کہ کسی بھی صدمہ کا اثر نہیں ہورہا ہے۔ 2010ء میں جب بابری مسجد اراضی کے سلسلے میں الہ آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا، اسی وقت یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ آئندہ بھی مسلمان جاگنے والا نہیں ہے اور وہ خواب غفلت کا شکار بننے کا عادی ہوچکا ہے۔ فیصلے سے قبل جس طرح مسلمانوں کو پست ہمت کرنے کی مہم منظم انداز میں چلائی گئی، اس کا اثر یہ ہوا کہ اراضی کے سلسلے میں منفی فیصلے کے باوجود احتجاج تو کجا مسلمانوں کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ ہندوستان کی تاریخ میں مسجد کی شہادت کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے، لیکن افسوس کہ مسلمانوں کا حال شہر خموشاں کے سناٹوں کی طرح ہے۔ حالانکہ بعض سناٹے اپنے اندر ایک گونج سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ آخر قیادت اور عوام کو کیا ہوگیا کہ وہ شرعی امور میں بھی بے حسی کا شکار ہیں۔ اسی صورت ِ حال پر منور رانا ؔنے کچھ اس طرح پیام دیا ہے :
دل کو ایمان سے منکر نہیں ہونے دیں گے
اس مسلمان کو کافر نہیں ہونے دیں گے