دھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون

   

تم فیصلے دو … ہم راجیہ سبھا دیں گے
رنجن گوگوئی کو نریندر مودی کا ریٹرن گفٹ

رشیدالدین
مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس نے کہا تھا ’’تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا‘‘ لیکن آج مودی سرکار کا نعرہ ہے ’’تم میرے حق میں فیصلہ دو ہم تمہیں راجیہ سبھا کی سیٹ دیں گے‘‘۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن نامزد کئے جانے پر ممتاز قانون داں ابھیشک منو سنگھوی نے یہ تبصرہ کیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے چار ماہ میں دوسرے اہم عہدہ پر معمور کیا گیا ہے۔ رنجن گوگوئی کے راجیہ سبھا کے لئے انتخاب نے ملک کے عدالتی نظام کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ دستور اور جمہوریت پر ایقان رکھنے والوں نے اسے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی کے مغائر قرار دیا۔ ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس گوگوئی نے جو فیصلے صادر کئے تھے، اس کے انعام کے طور پر راجیہ سبھا کی نشست دی گئی۔ رنجن گوگوئی کی نامزدگی سے ثابت ہوچکا ہے کہ مودی حکومت کس طرح دستوری اداروں کے کام کاج میں مداخلت کر رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن ، ریزرو بینک آف انڈیا اور پھر عدلیہ میں مداخلت کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ مودی حکومت نے نہ صرف دستوری اداروں کی آزادی کو مقید کردیا بلکہ اپنی پسند کے فیصلوں کے لئے مجبور کیا۔ یوں تو گزشتہ 6 برسوں میں مودی دورہ حکومت میں سپریم کورٹ کے کئی ججس ریٹائرڈ ہوئے لیکن حکومت نے ان پر کوئی مہربانی نہیں کی جبکہ رنجن گوگوئی ابھی سبکدوشی کی حقیقت کو محسوس بھی نہیں کرپائے تھے کہ راجیہ سبھا کی نشست کا تحفہ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ چیف جسٹس کی حیثیت سے آخری ایام میں گوگوئی نے جو فیصلے سنائے اس کے انعام کے طور پر راجیہ سبھا کی نشست معمولی شئے ہے۔

بسا اوقات کوئی بھی تحفہ دینے اور لینے والے دونوں کے ظرف کا پتہ چلتا ہے۔ شخصیت کے اعتبار سے تحائف ہوتے ہیں۔ بی جے پی ایجنڈہ میں موجودہ امور کے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کے بعد رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کی نشست پر ٹال دیا گیا ۔ جسٹس گوگوئی نے چیف جسٹس کی کرسی پر فائز ہوتے ہوئے مودی حکومت کی جو خدمت کی اس کی طویل فہرست ہے۔ بابری مسجد کی اراضی رام مندر کیلئے حوالہ کرنا ، طلاق ثلاثہ پر پابندی ، کشمیر میں 370 کی برخواستگی کی تائید، آسام میں این آر سی کی تائید اور رافیل جنگی طیاروں کی خریدی میں مودی حکومت کو کلین چٹ ۔ رنجن گوگوئی کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا ، جب ماتحت خاتون ملازم نے جنسی ہراسانی کی شکایت کی ۔ کھلی عدالت کے بجائے بند کمرہ میں سماعت کرتے ہوئے الزامات کو خارج کردیا گیا۔

سوامی اگنی ویش کے مطابق حکومت کی مدد سے اس واقعہ کو دبادیا گیا۔ الزامات کی آڑ میں رنجن گوگوئی کے سر پر تلوار لٹکائی گئی اور بلیک میل کرتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلے صادر کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ مودی حکومت میں مخالف فیصلوں پر تبادلہ اور تائیدی فیصلوں پر انعام کی روایت ہے ۔ دہلی کے حالیہ فسادات کے سلسلہ میں بی جے پی قائدین کے اشتعال انگیز بیانات کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرنے پر پولیس کی سرزنش کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلیدھر کا راتوں رات تبادلہ کردیا گیا ۔ گجرات میں سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر معاملہ کی سماعت کرنے والے جسٹس لویا کی مشتبہ موت آج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ جسٹس گوگوئی کو بی جے پی ایجنڈہ کے حق میں فیصلے سنانے پر مودی نے ریٹرن گفٹ دیا ہے ۔ گوگوئی نے سبری مالا میں خواتین کے داخلہ کے بارے میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 7 رکنی بنچ سے رجوع کیا ۔ یہ اس لئے ہوا کیونکہ مرکزی حکومت پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ پر عمل آوری کے لئے تیار نہیں تھی ۔ جہد کار کنہیا کمار کے مقدمہ میں جسٹس گوگوئی نے کوئی راحت نہیں دی ۔ الغرض گوگوئی کے ’’کارناموں‘‘ کی فہرست طویل ہے لیکن بابری مسجد اراضی کے بارے میں فیصلے نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو متز لزل کردیا۔ دلیل ۔ شواہد اور ثبوت کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا۔ سپریم کورٹ کے بنچ کی قیادت جسٹس رنجن گوگوئی کر رہے تھے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ 1949 ء میں مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا۔ آرکیالوجیکل سروے کی کھدائی میں مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔بابری مسجد میں برسوں تک نماز کی ادائیگی کو تسلیم کیا گیا ، اتنا ہی نہیں 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ۔ اتنا سب کچھ تسلیم کرنے کے باوجود خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مسجد کی اراضی مندر کے حوالے کردی گئی۔ جب تمام اہم اقدامات غیر قانونی قرار دیئے گئے تو غیر قانونی کام کرنے والوں کو سزا کے بجائے انعام کیوں دیا گیا ۔ یہ وہی رنجن گوگوئی ہیں جنہوں نے چار ساتھی ججس کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت پر عدلیہ کے امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں جمہوریت خطرہ میں ہے لیکن اپنے فیصلوں اور پھر راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرتے ہوئے گوگوئی نے ثابت کردیا کہ جمہوریت کے لئے جو لوگ خطرہ ہیں ، آپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ملک میں جب کبھی مقننہ اور عاملہ فرائض کی انجام دہی میں ناکام ثابت ہوئے تو عدلیہ نے دستور ، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھا ۔ اس طرح عدلیہ انصاف کے حصول کے لئے امید کی آخری کرن ہے لیکن رنجن گوگوئی کے راجیہ سبھا میں داخلہ نے سارے جوڈیشیل سسٹم کی آزادی اور غیر جانبداری پر سوال کھڑے کردیئے ہیں ۔ ججس کے مابعد ریٹائرمنٹ دوسرے عہدوں پر تقررات کے سلسلہ میں خود بی جے پی قائدین کے خیالات کچھ اس طرح ہیں۔ سابق وزیر اور ممتاز قانون داں ارون جیٹلی نے 2012 ء میں لکھا تھا کہ ججس دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو قانون کو جانتے ہیں اور دوسرے وہ جو وزیر قانون کو۔ انہوں نے کہا تھا کہ مابعد ریٹائرمنٹ عہدے ماقبل ریٹائرمنٹ فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے سابق صدر اور مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا تھا کہ ججس کے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اور عہدہ کے لئے کم از کم دو سال کا وقفہ لازمی ہونا چاہئے ورنہ عدلیہ کے امور میں حکومت کی مداخلت کی راہ ہموار ہوگی۔ آزادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدار عدلیہ کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔

وزیر ریلویز پیوش گوئل نے حال ہی میں ٹوئیٹر پر لکھا تھا کہ مابعد ریٹائرمنٹ پوسٹنگ کا رجحان ماقبل ریٹائرمنٹ فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بی جے پی نے رنجن گوگوئی کی نامزدگی کے سلسلہ میں اپنے ہی قائدین کے خیالات کو درست ثابت کردیا۔ عام طور پر راجیہ سبھا میں جب کوئی نیا رکن حلف لیتا ہے تو بلا لحاظ سیاسی وابستگی تمام ارکان استقبال کرتے ہیں لیکن رنجن گوگوئی کو نہ صرف ’’شرم شرم ‘‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ گوگوئی کے راجیہ سبھا میں داخلہ سے جو روایت قائم ہوئی ہے، اس سے برسر خدمت ججس میں مابعد ریٹائرمنٹ عہدوں کی خواہش اور امنگ پیدا ہوسکتی ہے اور وہ بھی گوگوئی کے راستہ پر چلتے ہوئے جانبدارانہ فیصلوں سے انصاف کا خون کرسکتے ہیں۔ اگر رنجن گوگوئی نے ایودھیا مقدمہ میں مسلم فریق کی تائید میں فیصلہ دیا ہوتا تو کیا انہیں راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا جاتا ؟ اگر ان کے فیصلہ حکومت کی مرضی کے خلاف ہوتے تو یقینی طور پر یہ اعزاز نہ ملتا بلکہ انہیں کئی تنازعات میں گھیردیا جاتا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ راجیہ سبھا کیلئے رنجن گوگوئی کا انتخاب صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص ذہن کے زیر اثر دیکھا جاسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ دستوری اداروں میں اولین عہدہ ہے۔ نئے صدر جمہوریہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ حلف دلاتے ہیں۔ اگر صدر جمہوریہ نے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا تب بھی ہونا یہ چاہئے تھا کہ رنجن گوگوئی شکریہ کے ساتھ اس تجویز کو واپس کردیتے کیونکہ راجیہ سبھا کے رکنیت سے چیف جسٹس کا عہدہ کئی درجے بلند اور بالاتر ہے۔ راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرنا دراصل سنگھ پریوار میں شمولیت اختیار کرنے کے مترادف ہے ۔ راجیہ سبھا کی عہدے تو کئی ایرے غیروں کو بھی ملتے رہے ہیں ۔ مبصرین کا احساس ہے کہ رنجن گوگوئی کا راجیہ سبھا میں داخلہ مستقبل میں عدلیہ میں انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرسکتا ہے اور حکومت کے حق میں فیصلے دینے کے لئے فلڈ گیٹ کھل جائے گا۔ یہ صورتحال عام آدمی کو انصاف سے محروم کرسکتی ہے۔ برسر خدمت ججس کے لئے یہ کسی لالچ سے کم نہیں۔ کرشن بہاری نور نے کیا خوب کہا ہے ؎
دھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں