دین سے حقیقی وابستگی اسی وقت ممکن ہے۔۔۔۔

,

   

اس دین کے ماننے والے اور اس پر چلنے والے روئے زمین پر چاہے کہیں بھی آباد ہوں ان کی پہلی اور آخری ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قرآن و سنت سے جوڑیں اور اس کو مضبوطی سے تھام لیں۔ دین سے حقیقی تعلق، سچا رشتہ، فکری وقلبی وابستگی اسی وقت ہوسکتی ہے جب قرآن و سنت دل کی گہرائیوں میں اتر جائے اور دماغ پر چھا جائے اور پوری زندگی کو اس طرح متاثر کردے کہ انسان کا ہر عمل اور ہر قول قرآن و سنت کے مطابق ادا ہونے لگے۔
خدا گواہ ہے کہ دینی مدارس ومکاتب، دینی تنظیمیں اور جماعتیں، خانقاہیں اور ذکر وارشاد کے حلقے، علماء ومشائخ کی مجلسیں، نوجوانوں کی انجمنیں، ائمہ کی وعظ و نصیحت، خواتین کی جد وجہد، دینی رسائل و مجلات، سیمینار و سمپوزیم و اجتماعات، کتابوں کی نشر و اشاعت، اہل فکر کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں، داعیوں کے اسفار ودورے، تنظیم و تحریک ان سب کا اصل مقصد مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں قرآن و سنت سے جوڑنا اور وابستہ کرنا ہے۔ یہ بات اتنی صاف او رواضح ہے کہ اس کی کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ ان کوششوں میں تنوع بھی ہے اور رنگا رنگی بھی۔ مختلف انداز کی کوششوں سے عبارت تمام کاوشیں ایک حسین گلدستہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور جس سے امت کی انفرادی شان اور وحدت بھی جھلکتی ہے اور اختلاف رائے کے باوجود اتحاد کی روح بھی ظاہر ہوتی ہے۔

✍🏼 حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ
( سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ