رانگ ڈیلیوری ۔ حیدرآباد کی جھیل میں گروسری کچرے کے مانند پھینکی گئی 

,

   

آلودگی پر قابو پانے والے بورڈ کے عہدیداروں اور ایم آر اوسے رجوع ہونے والے کمیونٹی کے درمیان اس واقعہ نے الجھن پیدا کردی ہے

حیدرآباد۔منگل کی صبح نیک نام پور کے مکین اس وقت تشویش کا شکار ہوگئے جب صبح انہیں نیک نام پور اور ابراہیم چیروکی جڑواں جھیلوں کے پاس چھ سو کیلو گرام ناکارہ گروسری اور روز مرہ استعمال ہونے والے اشیاء کاذخیر ہ پڑا ہوا دیکھائی دیا۔

مذکورہ اشیاء جات کوئی نامعلوم لوگوں نے بند کارٹنس میں لاکر ڈالے جس پرتلگوریاستوں میں چلائی جانے والے مشہور سوپر مارکٹس کے نام کی پیاکنگ بھی تھی۔

پانچ کیلو فی کس پرمشتمل پانچ ڈبوں میں بیس کیلو کے پندرہ بیاگس تھے جس کو نکالنے کے اٹھ والینٹرس تقریبا بارہ گھنٹے تک کام کرتے رہے تاکہ جھیل میں اس بہنے سے روکا جاسکے۔

اب یہ فکر لاحق ہوگئے ہیں98ایکڑ پر پھیلی ہوئی اس جھیل میں نہ جانے کتنے اشیاء جات اب تک جذب ہوچکے ہونگے۔علاقے کی ساکن ایک جہدکار مدھولیکا چودھری نے کہاکہ ’’ پوری طرح سے یہ ہمیں چونکا دینے والا ہے۔ بسکٹ سے لے کر مائیونیس او رکپڑوں او ربرتوں کی صفائی کرنے والا پاؤڈر اور چاول کی تھیلیاں۔

تمام چیزیں جھیل کے اوپر بہتے ہوئے دیکھائی دے رہیں ہیں۔ اس میں سے کچھ جھیل کے اوپر ہیں مگر زیادہ تر پانی میں ضم ہوگئی ہیں اور وہ تمام چیزوں کا نکالنا اب ممکن نہیں ہے‘‘۔ کس نے یہ چیزیں پھینکنی ہے ؟ یہ ایک معمہ ہے جس کو اب تک حل نہیں کیاگیا۔

ایک ڈبے پر ’الکاپور‘ لفظ لکھا ہوا تھا اور مقامی لوگوں نے مبینہ طور پر کہاکہ یہ اشیاء ممکن ہے کے قریب کے سوپر مارکٹ سے لائے گئے ہیں جو یہاں سے دو کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

آلودگی پر قابو پانے والے بورڈ کے عہدیداروں اور ایم آر اوسے رجوع ہونے والے کمیونٹی کے درمیان اس واقعہ نے الجھن پیدا کردی ہے۔ ایم آر او گنڈی پیٹ نے کہاکہ’’کئی سالوں سے مقامی لوگوں مذکورہ جھیل کو تحفظ فراہم کرنے کاکام کیاجارہا ہے۔

معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے نارسنگی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے‘‘۔

ہمارے نام میں نہیں۔ درایں اثناء الکا پور اسٹور کے ایکزیکیٹو نے کہا کہ بہت ممکن ہے کہ سال کے اختتام پر کچرہ اکٹھا کرنے والوں کا اہم رول ہے جو اس میں ذمہ دار ہیں۔