رمضان کا استقبال سنت ہے

   

مولانا محمد خواجہ شریفؒ (شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
استقبالِ رمضان فطری تقاضہ اور سنت ہے۔ اللہ رحمن و رحیم مخلوق کی پاکیزہ زندگی اور دارین کی کامیابی کے لئے اپنی رحمت اور اپنا فضل ہر آن اُتارتا ہے اور سال کے بارہ مہینے بناکر ہر مہینہ کو ایک خاص رحمت و کرم کا نشان بنایا اور تمام مہینوں میں رمضان المبارک کو جملہ انعامات کا نشان علم اور مرکز کرم بنایا۔ کنز العمال کی فصل فضائل زمنہ و شہور میں حدیث ہے کہ ’’رجب شہر اللّٰہ و شعبان شہری و رمضان شہر امتی‘‘۔ رمضان میری امت کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں امت کی ہر ضرورت اترتی ہے۔ یہ مہینہ امت کی داراین میں کامیابی کا سامان لے کر آتا ہے۔ ہر انسان رنج و الم سے دور اور خوشیوں سے معمور ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک رمضان کے مہینہ کا نام ہے۔ یہ سال میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے، مگر سال بھر کا سامان راحت لاتا ہے۔ اس مہینہ میں اُمت کی ہر ضرورت اُترتی ہے۔ اس مہینہ میں انسان سے رنج و الم دور اور خوشیوں سے معمور ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اس کا نام رمضان ہے اور اس کا نام بھی اسی شان کا ہے۔ یہ رمض یا رمضاء سے مشتق ہے، رمض کے معنی جلنے کے ہیں اور رمضاء کے معنی موسم خریف کی بارش۔
اس مہینہ میں انسان کے گناہ اور اس کی کثافتیں جل جاتی ہیں اور رحمتوں کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ دل کا گرد و غبار دھل جاتا ہے اور دنیا و آخرت کی کھیتیاں پک جاتی ہیں۔
بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے رمضان شریف کی آمد سے پہلے اس کے استقبال کے لئے خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے فرمایا ’’لوگو! تم پر مبارک مہینہ سایہ فگن ہے، اس میں اللہ نے تم پر روزے فرض کئے ہیں۔ یہ صبر و مواسات کا مہینہ ہے، تم اس میں روزے بھی رکھو اور روزہ داروں کو افطار بھی کراؤ، اس کا بھی تم کو اجر ملے گا۔ اس مہینہ میں مؤمن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے‘‘۔ یہ ایک طویل خطبہ ہے۔ اس مہینہ کی شان اور اس میں کیا کرنا ہے، ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے اس خطبہ میں بیان فرمادیا ہے۔ چنانچہ دنیا اپنے سر کی آنکھوں سے ہر سال دیکھتی ہے۔ مسلمان رمضان شریف کے مہینہ میں سب سے زیادہ خرچ کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ دولت بھی کما لیتے ہیں۔ اکثر غریب تو سال بھر کا روزینہ فراہم کرلیتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ اس مہینہ میں دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہینہ میں شیطانی شرارتیں کم ہو جاتی ہیں۔ اگر کہیں شیطانی شرارتیں نظر آتی ہیں تو یہ انسان کے ساتھ رہنے والا قرین شیطان کی یا کچھ غیر سرکش چھوڑے ہوئے شیاطین کی شرارتیں ہوتی ہیں۔
اس ماہ میں اللہ کے لئے روزہ رکھ کر انسان دن بھر کھانے پینے اور مباشرت سے رُکا رہتا ہے تو نفس کمزور ہو جاتا ہے اور تراویح و قیام اللیل کی سنت کا حکم اور اذکار و تلاوت کی کثرت کا حکم بھی آیا ہے، جس سے قلب کو قوت ملتی ہے، روح کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور روزہ دار کو مشاہدہ حق ذوالجلال کی قوت ملتی ہے۔ قرب خداوندی اور مشاہدہ حق سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے، اسی لئے حدیث شریف میں ہے کہ روزہ کی جزاء میں بن جاتا ہوں۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک تو روزہ افطار کے وقت اس میں دیدار الہی کی صلاحیت آگئی اور آخرت میں دیدار الہی سے سرفرازی ہوگی۔
اسی لئے جب یہ ماہ مبارک آتا ہے تو رحمت کی ہوائیں چلتی ہیں، رحمت کے بادل برستے ہیں، انسانوں کے دلوں میں محبت و رافت پیدا ہو جاتی ہے، سنگدل نرم دل ہو جاتے ہیں، تلاوت قرآن پاک اور ذکر کی کثرت ہوتی ہے، دل خوف خدا سے لرزتے ہیں اور رحمت کی اُمید لے کر خدا کی جناب میں رجوع ہوتے ہے۔
یہ مہینہ آتا ہے تو دل باخدا ہو جاتے ہیں، انقلاب آجاتا ہے، نوافل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر درجہ بڑھ جاتا ہے۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو بیس رکعات تراویح کا اہتمام اور قیام اللیل و تہجد کی عادت ڈالنا چاہئے۔ اس مہینہ میں بیت العزت میں قرآن مجید کا نزول ہوا اور دنیا میں اس کے نزول کا آغاز ہوا۔
اس مہینہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے زیادہ سخاوت اور اللہ کے راستہ میں سب سے زیادہ خرچ کرتے تھے۔ اس مہینہ میں اللہ تعالی کو بہت پسند ہے کہ اس کے بندے دن میں روزہ رکھیں اور راتیں عبادت الہی اور توبہ و انابت میں گزاریں۔ ذکر و استغفار اور تلاوت قرآن کی کثرت رکھیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’لوگو! تم رمضان المبارک میں (۱) لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ (۲) استغفار کی کثرت کرو۔
اس ماہ اور اس کے روزوں کی غرض و غایت کا ذکر قرآن پاک میں جس جگہ ملتا ہے، اس کے ساتھ ’’ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ اور ’’لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘‘ بھی بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ روزے اس لئے ہیں کہ تم دنیا و آخرت کے ہر نقصان سے بچو اور اس نعمت کی قدر کرو۔ یہ مہینہ ایک انسان کے لئے زندگی بھر ہر لمحہ بندگی کے آداب بجالانے کا قرینہ سکھاتا ہے اور اس کی مکمل تربیت دیتا ہے۔ اللہ تعالی اس ماہ کی قدر کی توفیق اور اس کی رحمتوں سے مالا مال فرمائے۔ (آمین)