رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

   

لیبر کو ٹرین … مئے نوشوں کو شراب
نمازی مساجد سے محروم… قیادتیں بے حس

رشیدالدین
ملک کی ایک جہاندیدہ ایک سیاسی شخصیت اکثر کہا کرتے تھے کہ جنون ہی انسان کو منزل تک پہنچاتا ہے جبکہ عقل و خرد کی وادیوں میں بھٹکنے والے کبھی بھی منزل کو نہیں پاسکتے۔ زندگی کا کوئی شعبہ کیوں نہ ہو ، کامیابی کا دارومدار انسان کی جدوجہد پر ہے ۔ منزل کو پانے کی دھن اور سوار ہو تو کوئی بھی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جنون نے کئی تحریکات کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ہندوستان کی انگریزوں کی غلامی سے آزادی محض جنون کا نتیجہ تھی ۔ یہ جنون ہی تھا جس نے علحدہ تلنگانہ ریاست کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کیا۔ منزل اور مقصد کا حصول صرف تعلیم یافتہ افراد کا مقدر نہیں ہے۔ کئی بار غریب اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے جنون کے آگے حکومتوں کو جھکنا پڑا۔ ملک میں گزشتہ تقریباً 45 دن سے جاری لاک ڈاؤن نے سماج کے ہر شعبہ اور ہر طبقہ کو بے بس کردیا لیکن محنت کش اور مزدوروں کے جنون کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں شراب جیسی سماجی برائی میں ملوث شراب کے دیوانوں نے حکومت کو کاروبار کھولنے کیلئے مجبور کردیا۔ مزدوروں کی روانگی کیلئے خصوصی ٹرین اور مئے نوشوں کیلئے شراب کی دکانات تک کھل جانا معمولی بات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کی دھن اور جنون کا نتیجہ ہے ۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں عبادت گاہیں، ہاسپٹلس، کلینکس ، تعلیمی ادارے ، تجارتی ادارے اور فیاکٹریاں بند ہیں ، ایسے میں صرف شراب کی فروخت کا آغاز حکومتوں کی شکست نہیں تو اور کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کا مقصد سماجی دوری کو برقرار رکھتے ہوئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ وائرس کے خلاف جنگ میں 130 کروڑ عوام نے بھرپور حصہ لیا اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی خواہشات کی قربانی دی لیکن حکومت کے ناعاقبت اندیش فیصلوں نے عوام کی قربانیوں کو ضائع کردیا۔ مزدوروں کیلئے ٹرین سرویس اور شرابیوں کیلئے دکانات کھولتے ہوئے حکومت نے خود سماجی فاصلہ اور دیگر پابندیوں کی دھجیاں اڑادی ہیں ۔

یہ دونوں فیصلے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ بیک وقت ہزاروں مزدوروں کا سڑکوں پر نکل آنا اور پولیس سے ٹکراؤ کے واقعات یہ ثابت کر رہے تھے کہ مزدوروں کو اپنے خاندان میں واپسی کی دھن سوار ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کے آغاز کے وقت مزدوروں کی منتقلی کا منصوبہ بند آغاز کردیا جاتا تو آج ان کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوتا۔ ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کے لئے دہلی کے نظام الدین تبلیغی مرکز کو ذمہ دار قرار دینے والے کہاں غائب ہوگئے۔ گودی میڈیا کے اینکرس کی زبان کو کیا فالج ہوگیا جو کل تک گلا پھاڑ کر مسلمانوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ اب جبکہ ہزاروں مزدور سماجی فاصلے اور دیگر احتیاط کے بغیر ٹرینوں میں سفر کر رہے ہیں ، ریلوے اسٹیشنوں پر ہجوم اور کسی میڈیکل ٹسٹ کے بغیر ٹرین کی بوگیوں میں سفر اور کامن باتھ روم کا استعمال کیا یہ گودی میڈیا کو دکھائی نہیں دیتا ؟ شراب کی خریدی کیلئے ہجوم اور بعض ریاستوں میں تشدد کے واقعات پر مودی میڈیا کیوں خاموش ہیں۔ لاک ڈاؤن کی پابندیاں ، شراب کی دکانات پر مذاق بن چکی ہیں، پھر بھی حکومت کو کور ونا کے پھیلاؤ کا خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ مساجد میں پانچ وقت باوضو اور طہارت و نفاست کے ساتھ مسلمان جمع ہوں تو کورونا کا خطرہ محسوس ہوتا ہے لیکن ٹرینوں میں کسی احتیاط کے بغیر جانے والے مزدور اور نشہ میں بدمست شرابی سڑکوں پر غلاظت اور گندگی پھیلائیں تو کوئی عیب نہیں۔

کسی نے کیا خوب کہ کورونا شریف وائرس ہے۔ وہ شراب کی دکانات پر نہیں جاتا بلکہ صرف عبادت گاہوں میں رہتا ہے اسی لئے حکومت نے عبادت گاہوں کو بند کردیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران دلچسپ مناظر دیکھے گئے ۔ دودھ اور دوائی کیلئے نکلنے والوں پر تو پولیس نے لاٹھیاں برسائیں لیکن شراب خریدنے والوں کو سیکوریٹی فراہم کی گئی۔ شراب جو ام الخبائث یعنی برائیوں کی جڑ ہے۔ وہ نہ صرف جسم بلکہ خاندان اور معاشرہ کی تباہی کا ذریعہ ہے۔ اس کی فروخت کی حکومت حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ کاش عبادت گاہوں اور دواخانوں کو کھول دیا جاتا تو عوام کو روحانی اور جسمانی راحت نصیب ہوتی۔ شرابیوں نے شراب سے اٹوٹ محبت کا کچھ ایسا ثبوت دیا کہ حکومت کو جھکنا پڑا لیکن افسوس کریں یا ماتم کہ مولوی حضرات ابھی بھی مساجد نہ جانے کے جواز بتانے میں مصروف ہیں۔ بات پھر وہیں جنون پر ٹک جائے گی ۔ وہ مذہبی اور سیاسی قیادت آج کہاں ہے جس نے شریعت میں مداخلت کی کوشش پر اتحاد کا ایسا مظاہرہ کیا تھا کہ راجیو گاندھی حکومت کو شاہ بانو مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف پارلیمنٹ میں دستوری ترمیم کرنی پڑی۔ وہ جنون ہی تھا جس کے آگے حکومت وقت کو جھکنا پڑا لیکن آج کی قیادتیں سب کچھ برداشت کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔ بابری مسجد کا یکطرفہ فیصلہ ، طلاق ثلاثہ پر پابندی ، شہریت ترمیمی قانون اور اس طرح کے کسی اقدام پر صدائے احتجاج تک بلند نہیں کی گئی۔ اسی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ کورونا کے نام پر رمضان المبارک میں مسلمانوں کو مساجد سے دور کردیا گیا۔ اسلامی تاریخ میں مساجد حکمرانی اور اتحاد کے مراکز تھے ۔ دور نبوت میں جب کبھی کوئی مصیبت آن پڑتی ، سرکار دوعالمؐ اور صحابہ اکرام مساجد کا رخ کرتے تھے۔ آج مساجد سے ہمارا رابطہ کمزور نہیں بلکہ ٹوٹ چکا ہے اور قیادتوں کی بے حسی اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ کیا ہم مزدوروں اور شرابیوں سے بھی گئے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے مقصد کو پالیا لیکن یہاں حکومت کے کہنے سے قبل ہی مذہبی اور سیاسی قیادتوں نے مساجد سے از خود دوری کا اعلان کردیا ۔ 6 جمعے مساجد کے بغیر گھروں میں گزر گئے ۔ کم سے کم آخری دہے کی طاق راتوں کی عبادات اور عیدالفطر کیلئے آواز اٹھائی جائے۔ مساجد سے دوری کا افسوس اور غم تو کسی کو نہیں ہے لیکن دینی مدارس کو عطیات کی فکر لاحق ہے ۔ بھلے ہی عید گھروں میں گزر جائے لیکن چندوں میں کمی نہ رہے ۔

معاشی بحران کا بہانہ بناکر حکومتوں نے شراب کی دکانات کو کھول دیا۔ صرف ایک دن میں تلنگانہ میں شراب سے تقریباً 100 کروڑ کا کاروبار ہوا ہے ۔ حکومت چلانے کیلئے یقیناً آمدنی کی ضرورت ہوگی لیکن صرف شراب کو ہی آمدنی کا ذریعہ کیوں بنایا جائے جبکہ ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ شراب صحت کے لئے نقصان دہ ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومت کو عوامی صحت سے زیادہ اپنے خزانہ کو بھرنے کی فکر ہے۔ ہر مذہب میں شراب کو برائی سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ حکومت حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ حکومت نے لاک ڈاون کے متاثرین کی مدد کیلئے 1500 روپئے تقسیم کئے تھے لیکن جیسے ہی شراب کی دکانات کھل گئی غریب عوام امدادی رقم کے ساتھ قطاروں میں ٹھہر گئے۔ جو امدادی رقم حکومت نے دی تھی اسے شراب کے ذریعہ واپس لے لیا گیا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہر مذہب میں سماجی اور اصلاحی تنظیمیں موجود ہیں جو برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں لیکن آج وہ تنظیمیں بھی خاموش ہیں۔ ماہرین کے مطابق لاک ڈاون کے حالات میں شراب کی فروخت کی اجازت دینا سماج کو کھوکھلا کرنے کا سبب بنے گا ۔ ایک طرف جرائم میں اضافہ کا اندیشہ ہے تو دوسری طرف شراب کے استعمال سے کورونا سے زیادہ ہلاکت خیز تباہی ہوسکتی ہے۔ کورونا صرف جانی نقصان کا سبب ہے جبکہ شراب نہ صرف گھروں کو بلکہ معاشرہ کو تباہ کردے گی ۔ حکومتوں کا کہنا ہے کہ عیدالفطر کی نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ ہاتھ ملانا اور گلے ملنا منع ہے لیکن بلا لحاظ مذہب و ملت اور بلا لحاظ جنس ہر شخص شراب پی سکتا ہے۔ حکومت کی یہ پالیسی کیا صحت مند معاشرہ کی ضمانت بن سکتی ہے ؟ چین جہاں سے کورونا کا آغاز ہوا تھا ، کمیونسٹ حکومت کے باوجود حکمرانوں نے مساجد کا رخ کرتے ہوئے دعاؤں کی اپیل کی۔ ظاہر ہے کہ جب مصیبت آجائے تو ہر کسی کو خالق کائنات کی یاد ستانے لگتی ہے ۔ کمیونسٹوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کوئی غیبی طاقت ضرور ہے جو دنیا کا نظام چلا رہی ہے۔ کمیونسٹ حکمرانوں نے جب مساجد کا رخ کیا تو پھر ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا جو عبادت گاہوں کو بند کرنے پر مصر ہیں۔ حالانکہ یہ حکمراں کمیونسٹ نہیں بلکہ اپنے عقیدہ کے مطابق خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت کی جانب سے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرایا جاتا ، تاکہ کورونا سے نجات ملتی۔ الغرض لاک ڈاؤن کے باوجود مزدور کو ٹرین اور شرابی کو شراب مل گئی لیکن نمازی کو مسجد نہیں مل سکی۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی