ریاست میں ڈینگو کی دہشت،حکومت محو خواب

   

خیر اللہ بیگ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری
میڈیا اور سوشیل میڈیا نے عوام میں بیداری لانے کا کام کیا ہے تو تلنگانہ کے چیف منسٹر کی سرکاری رہائش گاہ میں پالتو کتے کی موت پر ہنگامہ برپا کرنے والے چیف منسٹر کو ریاست میں ڈینگو اور ملیریا وبائی امراض سے ہونے والی اموات کی فکر نہ ہونا انسانی معاشرہ کیلئے افسوسناک واقعہ ہے۔ چیف منسٹر نے پالتو کتے کی موت کے بعد لاپرواہی کرنے والے دو وٹرنری ڈاکٹروں کے خلاف کیس درج کروایا۔ حکومت تلنگانہ نے اپنی دوسری میعاد میں ثابت کردیا کہ وہ انسانی جانوں کواہمیت نہیں دیتی، ہاں جانوروں کی موت پر خاطیوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 429 لگاکر مقدمہ درج کرتی ہے۔ پرگتی بھون کے اس پالتو کتے کی موت کا سب کو غم ہے ۔11 ماہ کے اس کتے کا مناسب علاج نہیں کیاگیا تو پرگتی بھون میں طوفان کھڑا کردیا گیا جبکہ ریاست میں ڈینگو سے صرف ایک دن میں 6 بچے فوت ہوئے اور اس مرض سے سینکڑوں متاثر ہورہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ عوام کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ حکمراں کو براہ راست مخاطب کرکے پوچھے کہ آخر ان کی ریاست میں یہ لاپرواہی کیوں ہورہی ہے۔ ان کے ووٹوں کو حاصل کرکے آئندہ پانچ سال تک مزے کی نیند لینے کا ارادہ کرنے والے چیف منسٹر کو یہ اندازہ ہے کہ اب ان کا کوئی بال بھی بانکا نہیں کرسکتا۔ ان محترم سے یہ بھی پوچھا نہیں جاتا کہ موصوف نے ایسی حکمرانی کرنے کا طریقہ کہاں سے سیکھا ہے؟۔ ہندوستان میں کسی بھی ریاست کے چیف منسٹر نے ایسی حکومت نہ کی ہو، لیکن لوگ یہ سوچ کر چُپ ہیں کہ چیف منسٹر محترم کے سامنے اس طرح کے سوال اُٹھانا یا اس طرح کا تخاطب مناسب نہیں ہے بلکہ یہ ان کی شان کے خلاف انتہائی بھونڈا ہوگا۔عوام کو بعد میں یہ بھی خیال آیا ہے کہ چیف منسٹر کی اس کوتاہی کے خلاف احتجاج کریں لیکن احتجاج کی ہمت نہیں ہورہی ہے تاہم بعض افراد یہ سمجھ رہے ہیں کہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ان قابل احترام ’’اناڑی حکمراں ‘‘ کو نیند سے بیدار کیا جائے ، لیکن ہمت نہیں کرپارہے ہیں کیونکہ انہیں یہ کہاوت خوفزدہ کررہی ہے کہ سوئے ہوئے شیر کو جگانے کے بعد جو حشر ہوگا وہ سب کے لئے مناسب نہیں ہوگا۔ بلا شبہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں صحت عامہ کے مسائل پر حکومت کی خاموشی یا حکمراں کے کرتوت انتہائی قابل مذمت ہیں۔ مگر سیاسی گالم گلوچ کرنے والے لیڈروں نے حکمراں کے تلوے چاٹ کر اپنے سیاسی اخلاقیات کو بھی ان کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ آندھرا پردیش کے سابق اسپیکر اور تلگودیشم لیڈر سیوا پرساد راؤ کی موت یا خودکشی واقعہ پر الزام تراشیاں ہونے کے درمیان تلنگانہ میں ڈینگو کی دہشت کو حکومت نے یکسر نظرانداز کردیا۔ اپوزیشن کے طور پر کانگریس نے اپنی دبی آواز میں یہ ضرور کہا ہے کہ ڈینگو پر قابو پانے میں ناکام چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤاور وزیر صحت ایٹالہ راجندر کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے جانے چاہیئے۔

ڈینگو یا ملیریا پر کنٹرول کرنا حکومت کے اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن ٹی آر ایس حکومت کو اس صورتحال کا شاید علم ہی نہیں ہے اس لئے وہ ریاست میں ’’ ہیلت ایمرجنسی‘‘ کا اعلان کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ہیلت ایمرجنسی کیا ہوتی ہے ،اس کا بھی اندازہ ہونا ضروری ہے صرف پرگتی بھون کے کتے کی موت پر ہیلت ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے تو شاید یہ انسانی اموات پر افسوس کرنے والوں کو صدمہ ضرور ہوگا لیکن عوام کے اس صدمہ کی بھی فکر کس کو ہے۔ حیدرآباد شہر کو ساری دنیا کے نقشہ پر نمایاں کرنے کا خواب دکھانے والے چیف منسٹر نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے کیوں کہ یہ شہر صفائی یا آلودگی سے پاک ہونے کی فہرست سے دور ہوکر مچھروں کی کثرت والے شہر کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر نمایاں ضرور ہوگیا ہے۔ محکمہ بلدیہ کے پاس انجیکشن ، ادویات کی کمی اور فوگنگ مشینوں کی عدم دستیابی کی شکایت ہے۔ اس سے حیدرآبادی شہریوں کی جان کو جوکھم میں ڈالتے ہوئے ڈی ڈی ٹی (DDT) کا استعمال کیا جارہا ہے جس پر کئی ممالک میں امتناع ہے۔ ڈی ڈی ٹی کا استعمال انسانی صحت کے لئے مضر ہے تاہم یہ حکومت عالمی تنظیم صحت کے اُصولوں کو بالائے طاق رکھ چکی ہے۔ اب تک ڈینگو کے ہزاروں کیس سامنے آچکے ہیں ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے تحت اُنٹامولوجی ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملیریا اور ڈینگو کو روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے لیکن عملہ کی کمی، ادویات کی قلت ، مشینوں کی عدم دستیابی سے بے بس یہ محکمہ صرف DDT کو استعمال کرکے عوامی پریشانیوں کو دور کرنے کی نادان کوشش کررہا ہے۔
محکمہ صحت کے عہدیداروں کو اندازہ ہے کہ ریاست بالخصوص حیدرآباد میں مچھروں پر قابو پانے کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ جی ایچ ایم سی کی جانب سے صرف DDT کا چھڑکاؤ کیا جارہا ہے جو انسانی صحت کے لئے مضر مانا جاتا ہے۔ سرکاری محکمہ کی بے بسی کا عالم اس لئے انتہا پر ہے کہ ہر طرف بے حِسی کا سا عالم ہے۔ حکمراں طبقہ سے لے کر عوام تک مست قلندر ہونے کا ثبوت دیا جارہا ہے۔ عوام اپنے حالات سے واقف ہونے کے باوجود اُف تک نہیں کررہے ہیں۔ شہر کے ہر باعزت، باوقار، لیڈنگ لیڈروں میں بھی یہ خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس لئے حکومت مزے میں ہے۔ شہر ڈینگو کی زد میں ہے اور ساری خرابیوں کے باوجود چیف منسٹر نے وعدہ کیا ہے کہ ٹی آر ایس مزید دو میعادوں تک اقتدار پر قائم رہے گی۔ حکمراں کا یہ دعویٰ اس لئے ہے کہ وہ عوام کی نبض سے واقف ہے۔ سیاست کو ایک کھیل کی طرح استعمال کرتے ہوئے حکمرانی کی پرفارمنس کو بھول جاؤ اور آئندہ مزید دو میعادوں تک حکمرانی برقرار رہنے کا دعویٰ کردو ، کون کیا بگاڑلے گا۔ یہ جملہ ریاست کی اپوزیشن پارٹیوں کے کمزور قائدین کے لبوں پر ضرور ہے مگر اظہار سے ڈرتے ہیں۔ یہ سرزمین تلنگانہ کی سب سے بڑی سیاسی پستی کا ثبوت ہے جہاں اپوزیشن کا وجود بھی صفر ہے۔ اس لئے جن لوگوں کے ہاتھوں میں عنان اقتدار ہے وہ بس حرص و ہوس والے دل و دماغ رکھتے ہیں۔ ان کی پل پل پھسلنے والی زبان کو قابو میں کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کالم کا اصل موضوع تو کچھ اور ہی تھا مگر ڈینگو کی دہشت کو عوام کے کمزور اعصاب پر سوار ہوتا دیکھا گیا تو انہیں خراٹے لینے یا جمائیاں لے کر سونے سے روکنے کے لئے مارکنگ کرنی پڑی ہے تاکہ خراٹے لینے یا جمائیاں لے کر ڈینگو کے وار یا حکمراں کے جھوٹے پیار کی زد میں آنے سے بچایا جاسکے۔٭
kbaig.92@gmail.com